جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

دين ميں ميانہ روى كيا ہے ؟

9466

تاریخ اشاعت : 07-01-2009

مشاہدات : 10434

سوال

دين ميں ميانہ روى سے مراد كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

دين ميں وسط اور ميانہ روى يہ ہے كہ انسان غلو نہ كرے كہ وہ اللہ كى حدود سے ہى تجاوز كر جائے، اور نہ ہى اس ميں اتنى كمى كرے كہ اللہ تعالى كى حد سے كمى كر دے.

دين ميں وسط اور ميانہ روى يہ ہے كہ سيرت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كيا جائے، اور دين ميں غلو يہ ہے كہ انسان سيرت نبويہ سے تجاوز كرے، اور تقصير يہ ہے كہ وہ سيرت نبوى پر عمل نہ كرے.

اس كى مثال يہ ہے كہ ايك شخص كہے ميں سارى رات قيام كرونگا اور نيند نہيں كرونگا، كيونكہ نماز تمام عبادات سے افضل ہے، اس ليے ميں سارى رات نماز ادا كرنا چاہتا ہوں.

تو ہم اسے كہينگے: يہ دين ميں غلو كرنے والا ہے، اور حق پر نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى ايسا ہوا، كچھ لوگ جمع ہوئے اور ايك كہنے لگا: ميں بيدار رہ كر سارى رات قيام ہى كرتا رہونگا، اور دوسرا كہنے لگا: ميں روزہ ركھوں گا اور افطار نہيں كرونگا، اور تيسرا كہنے لگا: ميں عورتوں سے شادى نہيں كرونگا.

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك يہ بات پہنچى تو آپ نے فرمايا:

" ان لوگوں كا كيا حال ہے جو يہ يہ بات كہہ رہے ہيں، ميں روزہ بھى ركھتا ہوں، اور افطار بھى كرتا ہوں، ميں نيند بھى كرتا ہوں اور عورتوں سے شادى بھى كر ركھى ہے، جس نے بھى ميرى سنت اور طريقہ سے بے رغبتى كى وہ مجھ ميں سے نہيں "

تو ان لوگوں نے دين ميں غلو كيا يعنى حد سے تجاوز كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے برات كا اظہار كر ديا، كيونكہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت سے بے رغبتى كى تھى، جس ميں روزہ بھى ہے اور افطار كرنا، اور رات كو قيام كرنا بھى شامل ہے اور سونا بھى، اور عورتوں سے شادى كرنا بھى.

رہا كوتاہى اور دين ميں كمى كرنے والے شخص كا مسئلہ: تو يہ وہ شخص ہے جو يہ كہے كہ مجھے نوافل كى كوئى ضرورت نہيں، ميں نفل ادا نہيں كرونگا، بلكہ صرف فرض ہى ادا كرونگا اور ہو سكتا ہے وہ فرائض ميں بھى كوتاہى كرنا شروع كر دے تو يہ مقصر اور كوتاہى كرنے والا ہے.

اور معتدل شخص وہ ہے: جو اس طريقہ پر چلے جس پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے خلفاء راشد تھے.

ايك اور مثال يہ ہے:

تين اشخاص كے سامنے ايك فاسق شخص ہے، ان تينوں ميں سے ايك كہتا ہے ميں اس فاسق كو سلام نہيں كرونگا، بلكہ اس سے بائيكاٹ كرتے ہوئے اس سے دور رہونگا اور اس سے كلام تك نہيں كرونگا.

اور دوسرا شخص كہتا ہے: ميں اس فاسق كے ساتھ چلونگا اور اس كو سلام بھى كرونگا، اور اس كو ہشاش بشاش چہرے كے ساتھ ملونگا، اور اسے اپنے پاس بلاؤنگا، اور اس كى دعوت كو قبول كرونگا، ميرے نزديك تو يہ ايك نيك و صالح شخص كى طرح ہے.

اور تيسرا كہتا ہے: يہ فاسق ہے ميں اس كے فسق كى بنا پر اسے ناپسند كرتا ہوں، اور اس كے ايمان كى بنا پر اسے پسند كرتا ہوں، اور اس سے بائيكاٹ نہيں كرتا، ليكن اگر اس سے بائيكاٹ كرنا اس كى اصلاح كا باعث ہو تو يہ بھى كرونگا، اور اگر بائيكاٹ اس كى اصلاح كا سبب نہ ہو بلكہ اس سے اس كے فسق ميں اور بھى اضافہ ہو گا تو ميں اس سے بائيكاٹ نہيں كرتا.

تو ہم كہينگے كہ: پہلا شخص مفرط اور غالى يعنى غلو كرنے والا اور حد سے تجاوز كرنے والا ہے، اور دوسرا شخص كوتاہى كرنے والا مقصر ہے، اور تيسرا شخص متوسط ہے.

اور سارى عبادات اور معاملات ميں بھى ہم اسى طرح كہينگے لوگ اس ميں مقصر بھى ہيں اور حد سے تجاوز كرنے والے بھى اور متوسط بھى.

تيسرى مثال يہ ہے:

ايك شخص اپنى بيوى كا قيدى ہے وہ اسے جہاں اور جس طرف چاہے بھيجے جاتا ہے، نہ تو وہ اسے گناہ سے باز كرتا ہے، اور نہ ہى اسے كسى اچھے كام پر ابھارتا ہے، وہ عورت اس كى عقل پر چھائى ہوئى ہے، اور اس كى مالك بن چكى ہے اور اس كى وہى حكمران بن چكى ہے.

اور ايك دوسرا شخص جس ميں بے راہ روى اور تكبر پايا جاتا ہے، اور وہ اپنى بيوى پر جبر كرتا اور اس كى كوئى پرواہ نہيں كرتا، گويا كہ وہ اس كے پاس خادم اور ملازم سے بھى كم وقعت ركھتى ہے.

اور ايك تيسرا شخص وسط اور ميانہ روى كا معاملہ كرتا ہے جيسا كہ اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے:

اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حق ہيں جيسے ان پر مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ البقرۃ ( 128 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مومن مرد مومن عورت ( بيوى ) سے بغض نہيں ركھتا، اگر اسے اس كى كوئى بات برى لگتى ہے، تو اس كى دوسرى بات سے وہ راضى ہوتا ہے "

تو يہ آخرى شخص اپنى بيوى كے معاملہ ميں متوسط اور ميانہ روى والا ہے، اور پہلا غالى اور حد سے تجاوز كرنے والا، اور دوسرا مقصر اور كوتاہى كرنے والا ہے، باقى عبادات اور اعمال پر بھى آپ اسى طرح قياس كر سكتے ہيں.

ماخذ: مجموع فتاوى و رسائل فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين ( 1 / 42 )