جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

حق پرورش كا زيادہ حقدار شخص

91862

تاریخ اشاعت : 05-10-2009

مشاہدات : 7691

سوال

ميں نے چار برس قبل شادى كى تعليم كى بنا پر ميرى بيوى اپنے ميكے ميں ہى رہ رہى ہے، اللہ تعالى نے مجھے تين بيٹياں بھى عطا كى ہيں، بيوى سے ميرے اختلافات ہيں وہ اس طرح كہ شادى كے پہلے برس ميرى بيوى سے غلطى كچھ يوں ہوئى كہ مجھ پر انكشاف ہوا كہ ميرى بيوى ايك اجنبى شخص سے ٹيلى فون پر بات كر رہى تھى، يہ موضوع اس طرح ختم ہوا كہ اس شخص كا ميرى بيوى كے ساتھ كوئى تعلق نہ تھا بلكہ وہ ميرى بيوى كو بليك ميل كر رہا تھا، اور ميرى بيوى خوفزدہ تھى كہ كہيں مجھے علم ہو گيا تو ميں اس كے متعلق غلط گمان كرنے لگوں گا، ليكن اس معاملہ نے مجھے مخمصہ ميں ڈال ديا اور اس وقت وسوسہ اور انديشہ بن گيا.
اور ميں نے ملك سے باہر جا كر عرفى شادى كر لى، اور اس وقت كے بعد سے پہلى بيوى جنسى امراض كا شكار ہو گئى جو عورتوں كو ہوتى ہے، لہذا ميں نے جب پہلى بيوى كا حسن اخلاق ديكھا تو دوسرى بيوى سے عليحدگى اختيار كر لى، يہ علم ميں رہے كہ دوسرى بيوى سعودى عرب سے باہر اپنے ملك ميں رہتى ہے، اور وقتا فوقتا ميں اس كے پاس جاتا رہا ہوں.
اور عرفى شادى كا عقد نكاح سركارى محكمہ ميں اندارج نہيں ہوا تھا، لہذا ميں نے عقد نكاح كا ورقہ پھاڑ ديا اور اس كے ساتھ تعلقات منقطع كر ديے، اور ميں شراب پر مشتمل بيرہ بھى استعمال كرتا رہا، جب ميں ملك سے باہر جاتا تو شراب نوشى كرتا تھا، دن گزرتے رہے اور اللہ تعالى نے مجھے ہدايت سے نوازا اور اللہ كے ساتھ سچائى كا ثبوت ديتے ہوئے كہ ميں نے معاصى ترك كر دى ہيں، ميں نے خود ہى اپنى مرضى سے پہلى بيوى كو دوسرى شادى كے متعلق بتا ديا، اور يہ بھى بتايا كہ ميں بيرہ نوش كرتا رہا ہوں اور اللہ نے مجھے توبہ كى توفيق دے كر ميرى توبہ قبول كر لى اور ميں يہ چھوڑ چكا ہوں، اور ميرا پختہ عزم ہے كہ آئندہ ايسا نہيں كرونگا.
ليكن ميرى بيوى اس كى متحمل نہ ہو سكى اور اب وہ مجھ سے عليحدہ ہونے پر مصر ہے، حالانكہ ميں ايسا نہيں كرنا چاہتا، ليكن اس سلسلہ ميں سارى كوششيں بيكار ہو چكى ہيں ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا مجھے اپنى بيوى كو بہتر اور اچھے طريقہ سے ركھنے اور ايك اطاعت و فرمانبردارى والے گھر ميں رہنے كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے كہ ہم ايك اچھى اور بہتر زندگى بسر كريں جس طرح اللہ تعالى كو پسند ہے ؟
اور اگر ايسى ميڈيكل رپورٹ پيش كى جائے جو دوسرى بيوى سے اسے نقصان كا ثبوت ديں تو كيا اسے مجھ سے خلع حاصل كرنے كا حق حاصل ہے ؟
اور اللہ نہ كرے اگر طلاق ہو جائے تو پھر بچيوں كا كيا بنے گا كيونكہ ايك چھ ماہ اور دوسرى تين برس اور تيسرى چار برس كى ہے ؟
اور كيا مجھے ان بچيوں كى پرورش كا حق حاصل ہے اور يہ كب ہو سكتا ہے، كيونكہ ان شاء اللہ ميرا عزم ہے كہ ميں ان كى اس طرح تربيت و پرورش كرونگا جس طرح اللہ كو پسند ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو توبہ اور ہدايت كى توفيق نصيب فرمائى، اور آپ سے برائى كو دور كر ديا، اللہ سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو مزيد ثابت قدمى عطا فرمائے.

دوم:

آپ كو چاہيے كہ اپنے اور بيوى كے خاندان والوں سے اچھى اور اصلاح پسند قسم كے افراد اختيار كريں جو آپ كى صلح كرائيں، اور آپ كى بيوى طلاق كے مطالبہ سے دستبردار ہونے پر راضى كريں، كيونكہ اس كے گھر اور بيٹيوں كى مصلحت اسى ميں ہے.

اور آپ كو اسے ركھنے اور اس كو طلاق دينے كے مطالبہ كو رد كرنے كا حق حاصل ہے، اور آپ اپنى اس رغبت كا اعلان كر ديں كہ آپس ميں زندگى بسر كرنا چاہتے ہيں.

اور رہى بيوى اسے نہ تو طلاق دينے كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے اور نہ ہى خلع كا، ليكن اگر اس كا كوئى سبب ہو تو ايسا كر سكتى ہے، مثلا نقصان اور ضرر ہونے كا انديشہ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى بغير كسى سبب كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

رہا مسئلہ كہ قاضى طلاق يا خلع كا فيصلہ كرتا ہے تو يہ اس اعتبار سے ہو گا جو بيوى عذر پيش كرتى ہے.

سوم:

طلاق ہو جانے كى صورت ميں سات برس تك اولاد ماں كے پاس رہتى ہے، جب تك ماں آگے شادى نہ كرے؛ كيونكہ مسند احمد اور ابوداود كى حديث ميں آيا ہے:

عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے اس بيٹے كے ليے ميرا پيٹ اس كے ليے رہنے كى جگہ تھى، اور ميرى چھاتى اس كى خوراك كا باعث تھى، اور ميرى گود اس كى حفاظت كى جگہ تھى، اور اس كے باپ نے مجھے طلاق دے دى ہے، اور اب اس كو مجھ سے چھيننا چاہتا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے فرمايا:

" تم جب تك نكاح نہيں كرتى اس كى زيادہ حقدار ہو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2276 ) مسند احمد حديث نمبر ( 6707 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 1968 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

جب بچہ سات برس كا ہو جائے تو اسے والدين ميں سے كسى كے ساتھ رہنے كا اختيار ديا جائيگا، اور وہ جسے زيادہ پسند كرتا ہے اسے اختيار كر كے اس كے ساتھ رہے گا، ليكن بچى سات برس كى ہو جائے تو اس ميں علماء كا اختلاف ہے:

امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اسے بھى اختيار ديا جائيگا.

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ماں زيادہ حقدار ہے حتى كہ بچى كى شادى ہو جائے يا حيض آ جائے "

امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كى ماں زيادہ حقدار ہے، حتى كہ بچى كى شادى ہو جائے اور خاوند دخول كر لے "

اور امام احمد كہتے ہيں:

" اس بچى كا باپ زيادہ حقدار ہے؛ كيونكہ باپ اس كى حفاظت زيادہ كر سكتا ہے "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 314 - 317 ).

اس اختلاف كو مدنظر ركھتے ہوئے اس مسئلہ ميں سنت نبويہ ميں كوئى ايسى نص نہيں جو اس ميں فيصلہ كن ہو، اس ليے اس ميں مرجع شرعى قاضى ہو گا، اور وہى يہ تحديد كريگا كہ بچى سات برس كى ہو جائے تو وہ كس كے ساتھ رہے گى.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے اور سب مسلمانوں كے حالات كو سدھارے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب