جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

نماز میں تعوذ پڑھنے کا حکم

سوال

نماز کی ہر رکعت میں تعوذ پڑھنا ضروری ہے؟ یا صرف پہلی رکعت میں ہی پڑھنا کافی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

قرآن کریم کی تلاوت سے قبل اللہ تعالی نے تعوذ یعنی شیطان مردود سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمایا:
 فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 
ترجمہ: پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ مانگیں۔ [النحل: 98]
تعوذ کا مطلب یہ ہے کہ: آپ ہر شریر کے شر سے پناہ حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑائیں؛ چنانچہ تعوذ انسان سے ہر قسم کے شر کو دور کرنے کے لیے پڑھا جاتا ہے گویا کہ تعوذ پڑھنے والا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ: میں شیطان مردود کے شر سے ذات باری تعالی کی پناہ حاصل کرتا ہوں کہ وہ شیطان مجھے دینی یا دنیاوی اعتبار سے نقصان پہنچائے، یا مجھے جن احکامات کا حکم دیا گیا ہے ان کی تعمیل سے روکے، یا ممنوعہ کاموں پر مجھے ابھارے۔

جمہور اہل علم کا یہ موقف ہے کہ تعوذ پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔
المغنی: (2 /145)

جبکہ بعض اہل علم کہتے ہیں تعوذ پڑھنا واجب ہے، ان کی دلیل یہی آیت ہے کہ اس آیت میں تعوذ پڑھنے کا حکم ہے اور حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے، یہی موقف ابن حزم کا ہے اور اسی کی جانب ابن کثیر رحمہ اللہ کا رجحان ہے۔
دیکھیں: " تفسير ابن كثير " ( 1 / 14 )

جبکہ دائمی فتوی کمیٹی کی جانب سے تعوذ کے مسنون ہونے کا موقف اپنایا گیا ہے، جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (6 / 381) میں ہے کہ:
"نماز میں تعوذ پڑھنا مسنون ہے، اس لیے عمداً نماز میں چھوڑ دیں یا بھول کر تو یہ نقصان دہ نہیں ہے۔"

تعوذ پڑھنے کے مختلف الفاظ منقول ہیں:

  1. أَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
  2. أَعُوْذُ بِاللَّهِ السَّمِيْعِ الْعَلِيْمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
  3. گزشتہ الفاظ کے بعد: مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفَثِهِ کا اضافہ ہے۔ جس کا بالترتیب معنی ہے: شیطان کا گلا گھونٹنا، شیطانی تکبر، اور شیطانی شعر۔

مزید کے لیے آپ " تفسير ابن كثير " ( 1 / 13 ) کا مطالعہ کریں۔

سوم:

تعوذ نماز اور غیر نماز ہر دو حالت میں پڑھ سکتے ہیں ، تاہم نماز میں صرف ایک بار پہلی رکعت میں پڑھنا کافی ہے، ہر رکعت میں پڑھنا واجب نہیں ہے۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت دوسری رکعت سے کھڑے ہوتے تو خاموش ہوئے بغیر فوری الحمد للہ رب العالمین پڑھ کر قراءت کا آغاز کرتے تھے۔" اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دعائے استفتاح اور تعوذ دوسری رکعت کے آغاز میں نہیں پڑھتے تھے۔

امام احمد سے نماز میں تعوذ پڑھنے کے بارے میں مختلف روایات ہیں، چنانچہ آپ سے ایک موقف یہ منقول ہے کہ تعوذ صرف پہلی رکعت کے ساتھ خاص ہے، یہی موقف عطاء، حسن، نخعی اور ثوری رحمہم اللہ کا ہے، ان کی دلیل ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہی حدیث ہے، ویسے بھی پوری نماز ایک ہی عبادت ہے اس لیے ایک ہی قراءت کا حکم رکھتی ہے ۔۔۔
دوسری روایت یہ ہے کہ: ہر رکعت میں تعوذ پڑھے، یہی موقف ابن سیرین اور امام شافعی کا ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 
ترجمہ: پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ مانگیں۔ [النحل: 98]

تو اس کا تقاضا ہے کہ جب بھی قراءت ہو گی تعوذ کو بھی دوبارہ پڑھا جائے گا، ویسے بھی تعوذ قراءت کے لیے ہے اس لیے جب بھی قرآن کریم کی تلاوت ہو گی تعوذ کو بھی بار بار پڑھا جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے دو نمازوں میں الگ الگ قراءت کی جاتی ہے۔
" المغنی" ( 2 / 216 )

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک بار تعوذ پڑھنے پر اکتفا کرنا زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔"
زاد المعاد: (1 / 242)

علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تعوذ کے بارے میں جتنی بھی روایات ہیں ان میں صرف اتنا ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف پہلی رکعت میں تعوذ پڑھا ہے ۔۔۔ چنانچہ محتاط عمل یہی ہے کہ حدیث کے مطابق عمل کیا جائے اور وہ یہ ہے کہ پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے تعوذ پڑھیں۔"
" نيل الأوطار " ( 2 / 231 )

چہارم:
فقہائے کرام کا نماز میں تعوذ پڑھنے کی جگہ کے بارے میں اختلاف ہے، تو ایک گروہ کا کہنا ہے کہ قراءت کے بعد تعوذ پڑھیں گے، تو یہ کمزور موقف ہے۔

جیسے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جمہور کے موقف کے مطابق تعوذ تلاوت سے قبل پڑھنا ہو گا، تا کہ وسوسہ ڈالنے والے کو دفع کیا جا سکے۔"
"تفسير القرآن العظيم " ( 1 / 13 )

ابو بکر جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قراءت کے بعد تعوذ پڑھنے کا موقف شاذ موقف ہے، کیونکہ تعوذ تو قراءت سے پہلے اس لیے ہے کہ قراءت کے دوران شیطانی وسوسے ختم ہو جائیں؛ اسی لیے تو اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ 
ترجمہ: ہم نے آپ سے قبل جتنے بھی رسول یا نبی بھیجے سب کے سب جب بھی تلاوت کرتے تو شیطان ان کی تلاوت میں رخنے ڈالتا تھا، تو اللہ تعالی شیطان کے ڈالے ہوئے رخنوں کو ختم فرما دیتا، اور اپنی آیات محفوظ فرما لیتا ہے، اور اللہ تعالی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔[الحج: 52]
تو اس لیے اللہ تعالی نے تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔"
أحكام القرآن " ( 3 / 283 )

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب