منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

وحشى جانوروں كى كھال پہننا اور اس پر بيٹھنا

9022

تاریخ اشاعت : 24-09-2008

مشاہدات : 8939

سوال

امام بخارى رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ ٹائگر وغيرہ كى كھال كے مشابہ لباس نہيں پہننا چاہيے، مجھے اس مسئلہ كا علم نہيں تھا ميرے پاس اس طرح كا لباس ہے، اب ميرى نيت ہے كہ ميں دوبارہ اس طرح كا لباس نہيں خريدونگا، تو كيا ميں گھر ميں يہ لباس استعمال كر سكتا ہوں، يا كہ گھر ميں بھى يہ لباس پہننا حرام ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

لگتا ہے سائل امام بخارى كى درج ذيل حديث كى طرف اشارہ كر رہا ہے:

براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مياثر سے منع فرمايا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5175 ).

المياثر: يہ ايك قسم كى چٹائى اور بچھونا ہے جو گھوڑے كى كاٹھى پر ركھتے تھے، اور اسے ريشم سے تيار كيا جاتا تھا، اور بعض علماء كرام نے اس كى شرح كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ وحشى جانوروں كى كھال سے بنائى جاتى تھى.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كى توجيہ اس وقت ممكن ہے جب يہ بچھونا كھال سے بنا كر اس ميں كچھ بھرا جائے " اھـ

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 293 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے وحشى جانوروں كى كھال كا لباس پہننے اور اس پر بيٹھنے سے منع فرمايا ہے.

مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو وحشى جانوروں كى كھال كا لباس پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع كرتے ہوئے سنا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4131 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3479 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ترمذى اور نسائى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كيا ہے كہ:

" نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وحشى جانوروں كى كھالوں كو بچھانے سے منع فرمايا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1771 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 4253 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 1450 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور معاويہ بن ابو سفيان رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ٹائگر پر سوار ہونے سے منع فرمايا "

يعنى ٹائگر كى كھال پر بيٹھنے سے.

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4239 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 3566 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس قافلہ ميں ٹائگر كى كھال ہو اس كے ساتھ فرشتے نہيں ہوتے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4130 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3478 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

تحفۃ الاحوذى ميں شيخ مباركپورى كہتے ہيں:

يہ احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں كہ وحشى جانوروں كى كھالوں سے فائدہ حاصل كرنا جائز نہيں ہے " اھـ

اس ميں حكمت يہ ہے كہ:

ايسا كرنے ميں تكبر اور نخوت پيدا ہوتى ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں جابر لوگوں كے ساتھ مشابہت ہوتى ہے، اور اس ليے كہ يہ اسراف اور فضول خرچ لوگوں كا لباس ہے.

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى اور ابن ماجہ كا حاشيۃ السندى.

اس ميں ايك اور علت كا اضافہ كيا جاتا ہے كہ: يہ نجس ہے، كيونكہ دباغت تو صرف اس جانور كى كھال كو پاك كرتى ہے جس كا گوشت كھايا جاتا ہے، ليكن جس كا گوشت كھانا حلال نہيں اس كى كھال دباغت سے پاك نہيں ہوتى، امام اوزاعى اور عبد اللہ بن مبارك اور اسحاق بن راھويہ كا مسلك يہ ہے، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ملتى ہے.

ديكھيں: شرح صحيح مسلم للنووى ( 4 / 54 ) اور الفروع ابن مفلح ( 1 / 102 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے بھى اپنے ايك قول ميں اسے اختيار كيا ہے.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 21 / 95 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى اختيار كيا ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 74 ).

عون المعبود ميں ہے:

اس حديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: ٹائگر كى كھال اتار كر ركھنا اور اسے سفر ميں اپنے ساتھ لے جانا اور اپنے گھروں ميں ركھنا مكروہ ہے كيونكہ جس قافلہ ميں ٹائگر كى كھال ہو اس ميں فرشتے نہيں ہوتے اس بات كى دليل ہے كہ فرشتے اس جماعت اور اس گھر ميں نہيں جاتے جہاں يہ كھال ہو، اور يہ اس كے ناجائز ہونے كى بنا پر ہى ہو سكتا ہے، كہ اس كا استعمال جائز نہيں، جس طرح احاديث ميں يہ وارد ہے كہ جس گھر ميں تصوير ہو وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے، اور اسے تصوير كى حرمت اور اسے گھروں ميں ركھنے كى حرمت كى دليل بنايا گيا ہے. اھـ

يہ تو اس صورت ميں ہے جس سوال ميں مذكور لباس طبعى اور اصلى كھال سے بنا ہو، جو حقيقى كھال ہوتى ہيں، ليكن اگر وہ مصنوعى كھال كا لباس ہو، يا پھر وحشى جانوروں كى كھال كے مشابہ رنگ ہو تو پھر مسلمان شخص كو اس سے اجتناب كرنا چاہيے، تا كہ حقيقت سے لاعلم شخص اسے يہ تہمت نہ لگائے كہ اس نے وہ كھال كا لباس پہن ركھا ہے جسے پہننا حرام ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب