منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

نام ركھنے ميں تاخير كرنا

سوال

ہمارے ہاں بچے كى پيدائش ہوئى ليكن مينڈھا نہ ملنے كى بنا پر نام ركھنے ميں تقريبا پانچ ماہ تاخير ہو گئى، تو كيا اب ہم اس كا نام ركھ سكتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بچے كا نام ركھنے كے وقت كى تحديد ميں كئى ايك احاديث آئى ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

1 - وہ احاديث جو پيدائش كے ساتويں روز بچے كا نام ركھنے كے استحباب پر دلالت كرتى ہيں:

عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ بچے كا ساتويں روز نام ركھا جائے، اور اس كى گندگى دور كى جائے، اور اس كا عقيقہ كيا جائے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2832 ) ترمذى نے اسے حسن غريب كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.

سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر بچہ اپنے عقيقہ كے ساتھ رہن اور گروى ركھا ہوا ہے، ساتويں روز اس كى جانب سے ذبح كيا جائے، اور اس دن اس كا نام ركھا جائے اور اس كا سر منڈايا جائے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2838 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل ( 4 / 385 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

2 - وہ احاديث جو پہلے روز ہى نام ركھنے پر دلالت كرتى ہيں:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" رات ميرا ايك بيٹا پيدا ہوا ہے، جس كا نام ميں نے اپنے باپ كے نام پر ابراہيم ركھا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2315 ).

اور جمہور علماء كہتے ہيں كہ اولى اور بہتر يہى ہے كہ بچے كا نام ساتويں روز ركھا جائے، اور انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث صرف ولادت كے دن نام ركھنے كے جواز پر دلالت كرتى ہے نہ كہ استحباب پر.

ديكھيں: المغنى ( 9 / 356 ).

اور بعض مالكى اور امام نووى كہتے ہيں اور حنابلہ كے ہاں بھى ايك توجيہ ہے كہ ولادت كے پہلے روز نام ركھنا مسحتب ہے اور اسى طرح ساتويں روز بھى مستحب ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سنت يہ ہے كہ بچے كا نام ولادت كے ساتويں روز ركھا جائے يا پھر ولادت كے روز " انتہى.

ديكھيں: الاذكار ( 286 ). مزيد ديكھيں: الانصاف ( 4 / 111 ).

اور امام بخارى رحمہ اللہ كا مسلك ہے كہ جو شخص عقيقہ كرنا چاہے تو وہ عقيقہ كے دن ساتويں روز تك نام ركھنے ميں تاخير كرے، اور جو عقيقہ نہ كرنا چاہے وہ پہلے روز ہى نام ركھ لے "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور يہ ( احاديث كے درميان ) بہت اچھا اور لطيف جمع جسے بخارى كے علاوہ كسى نے بھى جمع نہيں كيا " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 588 ).

اور عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور يہى ( يعنى ساتويں روز مستحب ہے ) قول حسن بصرى اور مالك اور شافعى اور احمد وغيرہ كا ہے.

اور ہمارے اصحاب كہتے ہيں: اس سے قبل نام ركھنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور محمد بن سيرين اور قتادہ اور اوزاعى كا كہنا ہے:

جب بچہ پيدا ہو جائے تو اس كى خلقت پورى ہو جاتى ہے اگر چاہيں تو اسى وقت اس كا نام ركھ سكتے ہيں.

اور ابن منذر كہتے ہيں: ساتويں روز بچے كا نام ركھنا بہتر اور اچھا ہے، اور جب چاہيں نام ركھ ليں.

اور ابن حزم كہتے ہيں: ولادت كے دن ہى بچے كا نام ركھا جائے، اور اگر ساتويں روز تك مؤخر كيا جائے تو يہ بہتر ہے.

اور ابن المھلب كہتے ہيں: جب بچہ پيدا ہو تو اسى وقت اس كا نام ركھنا جائز ہے، اور اس كے بعد بھى، ليكن اگر عقيقہ كرنے كى نيت ہو تو پھر سنت يہ ہے كہ ساتويں روز نام ركھا جائے، انہوں نے يہ امام بخارى كے قول سے ليا ہے جو انہوں نے باب باندھتے ہوئے كہا ہے:

عقيقہ نہ كرنا ہو تو ولادت كے دن ہى نام ركھنے كا باب. انتہى.

ديكھيں: طرح التثريب ( 5 / 203 - 204 ).

بہر حال اوپر جو بيان ہوا ہے وہ اس كى دليل ہے كہ معاملہ جواز اور استحباب كے درميان ہے، اور كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جو ساتويں روز نام ركھنے كو فرض كرتى ہو، اور اگر كوئى شخص ساتويں روز سے بھى نام ركھنے ميں تاخير كرتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارے اصحاب وغيرہ كا كہنا ہے: پيدائش كے ساتويں روز نام ركھنا مستحب ہے، اور اس سے قبل اور بعد ميں جائز ہے، اس سلسلہ ميں صحيح احاديث ملتى ہيں " انتہى.

ديكھيں: المجموع ( 8 / 415 ).

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر آپ كو چاہيے تو يہ تھا كہ آپ نئے مبارك بچے ـ ان شاء اللہ ـ كا نام پہلے يا ساتويں روز ركھ ليتے، پھر عقيقہ كا معاملہ آسانى تك چھوڑ ديتے كہ جب آسانى ہو عقيقہ كر ليا جائيگا، ليكن يہ ہے كہ اس ميں امر استحباب كے ليے ہے، اور اسے ترك كرنا گناہ اور سزا كا موجب نہيں.

مزيد آپ سوال نمبر ( 7889 ) اور ( 20646 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب