جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

بال سياہ كرنے جائز نہيں چاہے خاوند كے ليے كيوں نہ ہوں

82671

تاریخ اشاعت : 16-05-2008

مشاہدات : 6027

سوال

ايك بہن كا سوال ہے كہ:
ميں نے سنا ہے بال سياہ كرنے منع ہيں، جيسا كہ حديث ميں آيا ہے، اور ميں نے يہ بھى سنا ہے كہ جن كے بال سفيد ہو چكے ہيں، اور وہ بوڑھے ہو گئے ہيں اوروہ بال سياہ كرنا چاہيں تو لعنت ان كے ساتھ مخصوص ہے، يعنى عورت كا اپنے خاوند كے ليے زينت اختيار كرنے كے مسئلہ كو يہ حديث شامل نہيں ہوتى، تو كيا بيوى كا اپنے خاوند كے ليے بطور زينت بال سياہ كرنا صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مرد اور عورت كے ليے بال سياہ كرنےمطلقا جائز نہيں، چاہے عورت اپنے خاوند كے ليے كرے يا كسى اور كے ليے، كيونكہ بال سياہ كرنے كى ممانعت والے دلائل عمومى ہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر بالوں كو سياہ كيا جائے تو يہ جائز نہيں، كيونكہ اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے، اور سفيد بالوں كو رنگ كرنے اور سياہ كرنے سے اجتناب كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

" اس بڑھاپے ( سفيد بالوں ) كو تبديل كرو اور سياہ رنگ سے اجتناب كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 5476 ).

اور بالوں كو سياہ كرنے والے كے ليے وعيد بھى وارد ہے، جو كہ درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ميں پائى جاتى ہے:

" آخرى زمانے ميں كچھ لوگ ايسے ہونگے جو سياہ خضاب لگائينگے، جيسے كبوتر كى پوٹ ہوتى ہے، وہ جنت كى خوشبو تك حاصل نہيں كرينگے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4212 ) سنن نسائى ( 8 / 138 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 8153 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ حديث سفيد بالوں كو سياہ ميں تبديل كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، ليكن سياہ كے علاوہ باقى رنگ كے متعلق تو اصل جواز ہى ہے، ليكن اگر يہ كافرہ اور فاجرہ عورتوں كے طريقہ اور ا نكى اشكال و انواع ميں ہو تو پھر اس اعتبار سے يہ بھى حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 5 / 109 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے " انتہى.

ماخوذ از: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 11 / 120 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" اور جب سياہ خضاب لگانے ميں يہ حكم ہے تو حلال چيز استعمال كرنے ميں اس سے مستغنى ہوا جا سكتا ہے، وہ اس طرح كہ مہندى اور كتم ملا كر استعمال كى جائے، يا پھر سياہ اور سرخ دونوں كا درميانى رنگ استعمال كر ليا جائے، تو بالوں كى سفيدى كو حلال خضاب كے ساتھ تبديل كر كے مقصد حاصل ہو سكتا ہے، اور لوگوں كے نقصان والے دروازے كو جب بھى بند كيا گيا اس كے مقابلہ ميں خير و بھلائى كا دروازہ لازمى كھول ديا گيا ہے " انتہى.

ماخوذ از: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 11 / 123 ).

دوم:

اس مسئلہ ميں نوجوان اور بوڑھے ميں كوئى فرق نہيں، چنانچہ حرمت كا اقتصار اس پر نہيں كيا جا سكتا جس كے بال بڑھاپے كى بنا پر سفيد ہو گئے ہوں، بلكہ نوجوانوں كو بھى خالص سياہ خضاب استعمال كرنے سے منع كيا جائيگا.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميں نے بعض لوگوں كو ديكھا ہے كہ وہ بالوں كے رنگ تبديل كرنے كا مواد استعمال كرتے ہيں جس سے بال سياہ يا سرخ ہو جاتے ہيں، اور ميں انہيں دوسرے مواد بھى استعمال كرتے ہوئے ديكھا ہے جو بالوں كو نرم اور گھنگريالے بنا ديتا ہے، تو كيا يہ چيز استعمال كرنى جائز ہے، اور كيا اس حكم ميں نوجوان بھى بوڑھوں كى طرح ہيں؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" سياہ رنگ كے علاوہ بالوں كو رنگنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح بالوں كو نرم اور گھنگريالے كرنے والا مواد استعمال كرنا بھى اور اس ميں نوجوان اور بوڑھوں كے ليے ايك ہى حكم ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر يہ مواد طاہر اور پاكيزہ ہو، اور نقصاندہ اور مضر نہ ہو.

ليكن صرف سياہ رنگ سے بال رنگنا نہ تو مرد كے ليے جائز ہے اور نہ ہى عورت كے ليے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اس بڑھاپے كى سفيدى كو تبديل كرو، اور سياہ كرنے سے اجتناب كرو " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 168 ).

تنبيہ:

سائلہ كا يہ قول كہ: لعنت ان كے ساتھ مخصوص ہے جن كے بال سفيد ہو چكے ہوں.

اس كے متعلق گزارش ہے كہ ہمارے علم كے مطابق تو بال سياہ كرنے والے پر لعنت كسى حديث ميں نہيں آئى، بلكہ احاديث ميں ممانعت آئى ہے، جيسا كہ سابقہ احاديث ميں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب