جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مصنوعى دانت لگوانے كا حكم

82647

تاریخ اشاعت : 09-06-2008

مشاہدات : 15780

سوال

ڈينٹل ڈاكٹر بيمارى كى بنا پر خراب داڑھ نكال كر اس كى جگہ مصنوعى لگا ديتا ہے، اس كا كہنا ہے كہ اگر خالى جگہ پر نہ كى گئى تو باقى دانتوں كو بھى نقصان ہوگا، يہ علم ميں رہے كہ مصنوعى دانت يا تو فكس ہوتى ہے يا نہيں ( يعنى ان كا اتارنا ممكن ہوتا ہے، تو كيا يہ حلال ہے يا حرام، اور تغير خلق اللہ ميں داخل ہوتى ہيں يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيمارى كى ضائع ہونے كى بنا پر اتارے جانے والے دانتوں كى جگہ مصنوعى دانت لگانا مباح امر ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں، ہمارے علم ميں تو نہيں كہ اہل علم ميں سے كسى نے بھى اس سے منع كيا ہو، اس سے كوئى فرق نہيں پڑتا كہ مصنوعى دانت منہ ميں ہى فكس رہيں، يا اترنے والے ہوں، مريض كو اپنى مصلحت كے ليے تجربہ كار ڈاكٹر كے مشورہ پر عمل كرنا چاہيے.

تغير خلق اللہ يعنى اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى يہ ہے كہ اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت پر راضى نہ ہونا كہ دانت لمبے ہوں، يا پھر انكى شكل خراب معلوم ہوتى ہو، يا دانتوں كے مابين مسافت ہو، اسى ليے اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كرنے والے پر عموما لعنت كى گئى، اور دانتوں ميں تبديلى پيدا كرنے والے پر خصوصا لعنت كى گئى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يہ تو اللہ تعالى كو چھوڑ كر صرف عورتوں كو پكارتے ہيں، اور دراصل يہ صرف سركش شيطان كو پوجتے ہيں

جس پر اللہ تعالى نے لعنت كى ہے، اور اس نے يہ كہہ ركھا ہے كہ ميں تيرے بندوں ميں سے مقرر شدہ حصہ لے كر رہونگا

اور انہيں سيدھى راہ سے بہكاتا رہونگا، اور باطل اميديں دلاتا رہوں گا، اور انہيں سكھاؤں گا كہ جانوروں كے كان چير ديں، اور ان سے كہوں گا كہ اللہ تعالى كى بنائى ہوئى صورت كو بگاڑ ديں، سنو! جو شخص اللہ كو چھوڑ كر شيطان كو اپنا رفيق بنائےگا وہ صريحا نقصان ميں ڈوبےگا النساء ( 117 - 119 ).

امام مسلم رحمہما اللہ نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خوبصورتى كے ليے جسم گودنے، اور جسم گدوانے والى، اور ابرو كے بال اتارنے اور اتروانے والى، اور دانتوں كو رگڑ كر باريك كرنے اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى پيدا كرنے واليوں پر لعنت فرمائى "

پھر عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ مجھے كيا ہے كہ ميں اس پر لعنت نہ كروں جس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2125 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

الواشمۃ: يہ وشم كا اسم مؤنث اسم فاعل ہے، يعنى وشم كرنے والى عورت، يہ وہ عورت ہے جو اپنے ہاتھ يا كلائى، يا ہونٹ وغيرہ يا اپنے جسم كے كسى بھى حصہ ميں سوئى وغيرہ داخل كرے حتى كہ خون نكل آئے، اور پھر اس جگہ ميں سرمہ يا چونا وغيرہ بھر دے جس سے وہ سبز رنگ كا ہو جائے، ايسا فعل كرنے والى كو واشمہ كہتے ہيں، اور جس كے ساتھ يہ فعل كيا گيا ہو اسے موشومہ كہتے ہيں، اور اگر كوئى عورت ايسا كرنے كا مطالبہ كرے تو اسے مستوشمہ كہا جاتا ہے.

النامصۃ: وہ عورت جو اپنے چہرے سے ابرو كے بال اتارے، اور المتنمصۃ: وہ عورت ہے جو ايسا كرنے كا مطالبہ كرے.

المتفلجات: سے مراد يہ ہے كہ:

اپنے دانتوں كو رگڑ كر باريك كرنا، اگلے چار يا دو دانتوں كو رگڑ كر خوبصورت بنانا، اور يہ الفلج سے ہے جس كا معنى اگلے چار يا دو دانتوں كے مابين رگڑ كر فاصلہ كرنا ہے، يہ بوڑھى اور اس كى عمر كو پہنچنى والى عورتيں كرتى ہيں تا كہ چھوٹى عمر كى نظر آئيں اور دانتوں كى خوبصورتى كے ليے.

اس ليے كہ دانتوں كے درميان يہ تھوڑا سا فاصلہ چھوٹى عمر كى لڑكيوں ميں ہوتا ہے، اور جب عورت بڑى عمر كى ہو جاتى ہے تو اس كے دانت بڑے ہو كر آپس ميں مل جاتے ہيں، تو وہ اسے ريتى كے ساتھ رگڑ كر ديكھنے كے ليے خوبصورت بناتى ہے، اور لوگوں كو يہ باور كراتى ہے كہ وہ چھوٹى عمر كى ہے، اور ان احاديث كى بنا پر ايسا كرانے اور كرنے و الى پر يہ فعل حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ يہ اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى اور تغير ہے، اور اس ليے كہ يہ جعل سازى اور دھوكہ ہے.

المتفلجات للحسن:

اس كا معنى يہ ہے كہ يہ فعل خوبصورتى كے ليے كرتى ہيں، اور اس ميں يہ اشارہ ہے كہ حرام وہ ہے جو خوبصورتى كے ليے كيا گيا ہو، ليكن اگر دانت كے علاج يا كسى عيب كى بنا پر علاج كے ليے ايسا كيا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: شرح مسلم ( 14 / 106 - 107 ) مختصرا.

امام نووى رحمہ اللہ كى كلام نے دانتوں ميں موجود كسى عيب كو دور كرنے كے ليے علاج كروانے، اور اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت پر راضى نہ ہونے اور خوبصورتى كے ليے دانتوں كے ساتھ كھيلنے ميں فرق بيان كر ديا ہے، لہذا پہلى غرض كے ليے مباح ہے، اور دوسرى غرض كے ليے حرام ہے.

سنت نبويہ ميں اسے دلائل ملتے ہيں جن سے بيمارى يا بڑھاپے كى بنا پر گر جانے والے دانتوں كى جگہ مصنوعى دانت لگانے پر استدلال كيا گيا ہے، بلكہ اگر اس كى جگہ كوئى دانت نہ ٹھر سكے تو سونے كے دانت لگانا بھى جائز ہيں.

عرفجہ بن اسعد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہيں جاہليت ميں يوم كلاب ( جاہليت كى ايك لڑائى كا نام ہے ) ميں ناك پر زخم آيا، تو انہوں نے چاندى كى ناك بنوا كر لگوائى، ليكن اس ميں بدبو پيدا ہونے لگى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں حكم ديا كہ وہ سونے كى ناك بنوا كر لگا ليں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1770 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4232 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5161 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے " ارواء الغليل " ( 824 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" ليكن ضرورت كے وقت سونے كے دانت وغيرہ استعمال كرنا جائز ہے، شرط يہ ہے كہ اگر اس كى جگہ كوئى اور نہ فٹ نہ ہو " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 248 ).

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارے ليے جاننا ضرورى اور واجب ہے كہ سونے كا دانت لگانا جائز نہيں، ليكن ضرورت كے وقت جائز ہے، اس ليے كوئى بھى شخص بطور زينت اور خوبصورتى نہيں لگوا سكتا، ليكن اگر عورتوں كے ہاں سونے كے دانتوں كے ساتھ خوبصورتى اور حسن اختيار كرنا عادت بن چكى ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن مردوں كے بغير ضرورت كے كبھى بھى جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: لقاءات الباب الفتوح ( 28 ) سوال نمبر ( 5 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب