جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

لاٹرى اور شراب اور خنزير فروخت كرنے والى دوكان پر ملازمت كا حكم

81778

تاریخ اشاعت : 20-10-2007

مشاہدات : 5954

سوال

ميں نوجوان اور امريكہ ميں رہائش پذير ہوں، اور دو ماہ سے حلال اور شرعى كام تلاش كر رہا ہوں، ليكن جو عرب لوگ اس شہر ميں رہائش پذير ہيں وہ يا تو خنزير اور يا پھر شراب فروخت كرتے ہيں، اور اس وقت ميرا كسى دوسرے شہر ميں جانا ممكن نہيں، كيونكہ ميرى بيوى يونيورسٹى ميں زير تعليم ہے، كيا اس حالت ميں خنزير فروخت كرنے والے ہوٹل ميں ملازمت كرنا حرام ہے ؟
ايك دوسرے شہر جو كہ تقريبا بيس ميل دور ہے ميں مجھے ايك سپر ماركيٹ پر ملازمت ملى ہے جہاں لاٹرى كى پرچياں فروخت ہوتى ہيں اور مجھے مجبورا آدھى رات وہاں سے واپس آنا پڑتا ہے، كيونكہ ميرى بيوى اور بيٹى اكيلى ہے، اور موسم سرما كا آغاز ہو چكا ہے اس وجہ سے درجہ حرارت صفر سے بھى كم ہوتا ہے، برف اور دھند كى بنا پر راستہ بھى خطرناك ہو جاتا ہے، تو كيا لاٹرى كى پرچياں فروخت كرنے والى دوكان پر ملازمت كرنا حرام ہے ؟
اور اس حالت ميں ميرا اپنے شہر ميں خنزير فروخت كرنے والے ہوٹل پر ملازمت كرنا افضل ہے يا كہ دوسرے شہر ميں لاٹرى فروخت كرنے والى دوكان پر ملازمت كرنا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميرے سائل بھائى ميں يہ گمان نہيں كرتا كہ آپ ہم سے دو عظيم اور بڑے گناہوں كے مابين تفاضل چاہتے ہيں، ايك لاٹرى كے ذريعہ قمار بازى اور جوے كا گناہ جسے اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب كى درج ذيل آيات ميں حرام كيا ہے، اور اس سے منع كيا ہے، اور يہ آيا قيامت تك تلاوت كى جاتى رہينگى:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب، جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں اور شيطانى عمل ہيں، تم اس سے اجتناب كرو تا كہ تم كامياب ہو سكو، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور قمارى بازى كے ذريعہ تمہارے مابين بغض و عداوت پيدا كر دے، اور تمہيں اللہ كى ياد اور نماز سے روك دے، تو كيا تم اب بھى باز آجاؤ المآئدۃ ( 90- 91 ).

اور خنزيز كا گوشت يا شراب فروخت كرنے كے گناہ ميں افضليت كو بيان كرنے طلب كرتے ہو جسے اللہ سبحانہ وتعالى نے حرام كيا ہے.

كيا مسلمان شخص اس پر راضى ہو سكتا ہے كہ وہ كسى بھى حالت ميں ان كبيرہ گناہوں ميں سے كسى كو اختيار كرے؟! اور كيا يہى وہ زندگى ہے جس كے ليے وہ كوشش كر رہا ہے اور اس كى نعمت حاصل كر رہا ہے ؟ !

ميرے سائل بھائى ميں آپ كو ايسا خيال نہيں كرتا، كيونكہ آپ مسلمان ہيں اور اپنے اسلام كى بنا پر عزيز و كريم ہيں، اور قوى الايمان ہيں كہ آپ اس پر راضى ہو جائيں كہ اس عظيم برى اور خبيث چيز كو فروخت كرنے لگيں، جس نے سارى زمين كو فتنہ و فساد اور ظلم و برائى سے بھر ديا ہے، كيونكہ شراب ام الخبائث يعنى سب برائيوں كى جڑ ہے، اور قمار بازى و جوا لوگوں كا باطل طريقہ سے مال كھانا ہے، اور خنزيز كو تو اللہ تعالى قطعى حرام كيا ہے.

بلكہ ان اشيا كى حرمت تو شريعت اسلاميہ كى سب سے بڑى نشانى اور معالم ہيں، اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے لائق نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ وتعالى كے غيض و غضب كو دعوت دينے والى چيز فروخت كرے.

جى ہاں مسلمان شخص كے ليے كسى بھى حالت ميں لوگوں كو برائى فروخت كرنى جائز نہيں، چاہے وہ كوئى غير مسلم شخص ہى ہو؛ كيونكہ اس طرح وہ گناہ نشر كرنے ميں شريك ہوگا، اور اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى اور اس كے حكم كى مخالفت كرنے ميں معاون بنےگا.

ہمارى اس ويب سائٹ پر بہت زيادہ ايسے فتاوى جات موجود ہيں جو اس مسئلہ كو بيان اور اس كى وضاحت كرتے ہيں، اور حرام اشياء كى فروخت ميں شركت كى حرمت كا فيصلہ كرتے ہں، چاہے وہ كسى غير مسلم شخص كو ہى فروخت كيا جائے، اس ليے آپ سوال نمبر ( 1830 ) اور ( 40651 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اور اگر آپ ضرور اس ملك ميں رہنا چاہتے ہيں تو آپ اس دوكان كے مالك سے اس پر متفق ہو سكتے ہيں كہ آپ لاٹرى اور قمارى بازى كى پرچياں فروخت نہيں كرينگے، اور باقى مباح اشياء فروخت كرنا ہى كافى ہيں.

ہمارے فاضل بھائى آپ اس حالت يعنى ان حرام كاموں كو كرنے كى سوچ تك اس ليے پہنچے ہيں كہ آپ كفار كے مابين رہتے ہيں، اور وہاں رہنے والے اكثر لوگوں كى حالت بھى يہى ہے، اور يہ ان كفار ممالك ميں رہائش اختيار كرنے كا ہى نتيجہ ہے جو مسلمان ممالك سے دور ہيں؛ كيونكہ كفار كا معاشرہ كسى حدود اور اصول كا پاپند نہيں، اور نہ ہى وہ اللہ تعالى كے كسى حكم اور نہ ہى كى كسى ممانعت كا خيال ركھتا ہے.

ليكن مسلمان معاشرے ميں ( الحمد للہ ) بہت حد تك اللہ تعالى كى حدود كى پابندى ہوتى ہے، اس ليے ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ ہمارى اس ويب سائٹ پر كفار ممالك ميں رہنے اور بود و باش اختيار كرنے كا حكم معلوم كرنے كے ليے فتاوى جات كا مطالعہ كريں اور درج ذيل سوالات كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

سوال نمبر ( 13363 ) اور ( 27211 ).

ہمارے سائل بھائى آپ يہ ياد ركھيں كہ اللہ تعالى كا تقوى ہى ايك ايسى چيز ہے جو انسان كے ليے دنيا و آخرت كا بہترين خزانہ اور باقى رہنے والى چيز ہے، يہ دنيا ميں بندے كے ليے حصول رزق كا ذريعہ ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر بستيوں والے ايمان لے آتے اور تقوى اختيار كرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمين كى بركتوں كے خزانے كھول ديتے، ليكن انہوں نے تكذيب كى اور جھٹلايا تو ہم نے ان كے اعمال كى بنا پر انہيں پكڑ ليا الاعراف ( 96 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كو وہم وگمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل كرتا ہے اللہ تعالى اس كو كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنے كام كو پورا كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

اور آخرت ميں يہ چيز گناہوں كا كفارہ ہے اور معصيت كو مٹا ڈالتى ہے، اور اللہ تعالى كے عذاب سے بچاؤ كا باعث ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے گناہ معاف كر ديتا ہے، اور اسے اجر عظيم سے نوازتا ہے الطلاق ( 5 ).

اور پھر دنيا تو چند اور محدود دنوں كى ہے، اور موت قريب ہى آنے والى ہے، كسى بھى شخص كو يہ معلوم نہيں كہ آيا آج فرشتے اس كى روح قبض كريں گے يا كل ؟

جس شخص كى روح حرام اشياء فروخت كرتے ہوئے قبض ہو تو اس كى حالت كيا ہو گى نہ تو اس نے نصيحت سنى اور نہ ہى اس نے ياد دہانى كى طرف توجہ دى ؟!

ميرے سائل بھائى ميرا تو گمان يہى ہے كہ آپ اللہ تعالى كے عذاب سے ڈرنے اور اس كى سزا كا خوف ركھنے والے ہيں، اور آپ كبھى بھى راضى نہيں كہ آپ كى حالت ايسى ہو، يہ ياد ركھيں كہ صبر و تحمل كاميابى اور تنگى سے فراخى كى راہ اور كنجى ہے، اس ليے آپ كوئى حلال اور پاكيزہ كام تلاش كرنے كى كوشش كريں، اس كفريہ ملك ميں رہنے كے متعلق اپنے دل سے مشورہ كريں اور سوچيں كہ كيا يہ صحيح ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو ہدايت نصيب فرمائے، اور حق و خير اور بھلائى كى توفيق نصيب كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب