جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

زيور پہننے كے ليے كان چھدوانے كا حكم

78255

تاریخ اشاعت : 02-04-2008

مشاہدات : 6811

سوال

ميرے ساتھ آفس ميں كام كرنے والى ايك سہيلى نے مجھ سے سوال كيا ہے كہ آيا لڑكى كا زيور پہننے كے ليے اپنے كان چھدوانا حلال ہے، اور اگر حلال ہے تو كيا كان كا اوپر والا حصہ چھدوانا جائز ہے يا كہ نچلا حصہ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مرد و عورت كا آپس ميں مخلوط كام كرنا حرام ہے، اور اس كے بہت ہى برے نتائج حاصل ہوتے ہيں، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 6666 ) اور ( 39799 ) كے جوابات ميں گزر چكا ہے، اور سوال نمبر ( 27304 ) كے جواب كا مطالعہ بھى ضرور كريں، كيونكہ اسميں آفس ميں عورتوں سے مخاطب ہونے كا حكم بيان كيا گيا ہے.

عزيز سائل ہم نے يہ وضاحت آپ كے اس قول " آفس ميں ميرى ايك سہيلى " اور اس كا سوال نقل كرنے پر كرنا مناسب سمجھى، اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ آپ كے مابين بات چيت ہوئى ہے، اس ليے ہم پر واجب تھا كہ سوال كا جواب دينے سے قبل ہم آپ كو اور اسے بھى نصيحت كرتے، ہمارى نصيحت ہے كہ آپ دونوں كوئى ايسا كام تلاش كريں جس ميں مرد و عورت كا اختلاط نہ ہو، اور ہم نے جن جوابات كى جانب آپ كى توجہ مبذول كروائى ہے، وہ مرد و عورت كے اختلاط كے موضوع ميں تكرار كے ساتھ كلام كرنے سے مستغنى كر ديتے ہيں.

دوم:

لڑكى كے كان چھدوانے كے حكم كے متعلق علماء كرام ميں اختلاف پايا جاتا ہے:

احناف اور حنابلہ اس فعل كو جائز قرار ديتے ہيں، اور شافعى حضرات اسے ممنوع قرار ديتے ہيں، اور حنابلہ ميں سے ابن جوزى اور ابن عقيل نے ان كى موافقت كى ہے، انہوں نے كسى بھى نص سے ممانعت پر استدلال نہيں كيا، بلكہ ان كا كہنا ہے كہ يہ تكليف ہے، اور كان ميں زينت ضرورى نہيں، اور نہ ہى اتنى اہم ہے كہ اس كى وجہ سے لڑكى كو تكليف اور اذيت سے دوچار كيا جائے.

اور جب سنت نبويہ كى نصوص، اور صحابيات كے واقعات پر غور اور تدبر كيا جاتا ہے تو يہ واضح ہوتا ہے كہ پہلا قول يعنى جواز والا قول ہى راجح ہے، اس كے استدلال ميں چند ايك نصوص پيش كى جاتى ہيں:

1 - ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ( عيد گاہ كى جانب ) نكلے پھر خطبہ ارشاد فرمايا ـ ابن عباس نے نہ تو اذان كا ذكر كيا اور نہ ہى اقامت كا ـ پھر عورتوں كے پاس آئے اور انہيں وعظ و نصيحت فرمائى اور انہيں صدقہ و خيرات كرنے كاحكم ديا، تو ميں نے ديكھا كہ وہ اپنے كانوں اور گردنوں ميں سے زيور اتار كر بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو دے رہى تھيں، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور بلال اپنے گھر چلےگئے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4951 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 884 ).

اور بخارى و مسلم كى ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" تو عورتيں اپنے كانوں اور گردن كا زيور اتار كر دينے لگيں "

الخرص: كان كے زيور كو كہتے ہيں، اور السخاب: گردن اور سينہ كے زيور كو كہتے ہيں.

2 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" گيارہ عورتيں اكٹھى ہو كر بيٹھيں اور انہوں نے ايك دوسرے سے معاہدہ اور قسميں ليں كہ وہ اپنے خاوند كے متعلق كچھ بھى نہيں چھپائينگى.......

تو گيارہويں كہنے لگى: ميرا خاوند ابو زرع ہے، اور ابو زرع كے كيا كہنے اس نے ميرے كانوں كو زيور سے بھر ديا....

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں تيرے ليے اسى طرح ہوں جس طرح ابو زرع ام زرع كے ليے تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2448 ).

ابو زرع نے ام زرع كے كانوں ميں جو زيور ڈالا حتى كہ وہ بھارى ہو گئے اور حركت كرنے لگے، ابو زرع كے اس فعل كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے برقرار ركھا، اور صحيح قرار ديا.

اور رہا مسئلہ كانوں كے اوپر والى طرف سوراخ كرنا، تو ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اوپر يا نيچے سوراخ كرنے ميں كوئى فرق نہيں، صرف اتنا ہونا چاہيے كہ لڑكى كے گھر اور خاندان ميں اس كو متعارف ہونا چاہيے.

يہاں ايك تنبيہ كرتے ہيں كہ: عورت كے ليے جائز نہيں كہ وہ جو زيور بھى اپنے ہاتھ يا گردن، يا كانوں وغيرہ ميں پہنے اسے كسى اجنبى اور غير محرم مرد كے سامنے ظاہر كرے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

زينت اور خوبصورتى كے ليے لڑكى كے كان يا ناك ميں سوراخ كرنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" صحيح يہى ہے كہ كانوں ميں سوراخ كرنےميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ ان مقاصد ميں شامل ہے جس كے ساتھ مباح زيور پہننے تك پہنچا جاتا ہے، اور ثابت ہے كہ صحابہ كرام كى بيوياں اپنے كانوں ميں بالياں پہنا كرتى تھيں، اور يہ بہت سے قليل سى تكليف ہے اور جب بچپن ميں سوراخ كيا جائے تو يہ بہت جلد ٹھيك ہو جاتا ہے.

ليكن كان ميں سوراخ كرنے كے متعلق مجھے اہل علم كى كوئى كلام ياد نہيں، ليكن ہمارى رائے كے مطابق اس ميں مثلہ اور خلقت ميں بدصورتى ہے، اور ہو سكتا ہے ہمارے علاوہ دوسرا يہ رائے نہ ركھتا ہو، اس ليے اگر عورت ايسے علاقے اور ملك ميں رہتى ہو جہاں ناك ميں زيور پہننا زينت و خوبصورتى شمار ہوتى ہو تو پھر ناك ميں سوراخ كرنے ميں كوئى حرج نہيں تا كہ زيور پہنا جا سكے.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 ) سوال نمبر ( 69 ).

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" بچى كے كان ميں زيور ڈالنے كےليے سوراخ كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اب تك بہت سارے لوگ يہ عمل كر رہے ہيں، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى عورتيں بغير كسى انكار كے كانوں وغيرہ ميں زيور پہنا كرتى تھيں.

رہا يہ مسئلہ كہ لڑكى كو اس سے تكليف ہوتى ہے: يہاں مقصد بچى كى مصلحت مد نظر ہے؛ كيونكہ لڑكى زيور پہننے كى محتاج ہے، اور اسے خوبصورتى اور زينت كرنے كى ضرورت ہے؛ تو اس غرض اور مقصد كے ليے كانوں ميں سوراخ كرنا مباح ہے، اور ضرورت كى بنا پر اس كى اجازت ہے، جس طرح ضرورت كى بنا پر آپريشن كرنے، اور ضرروت كى بنا پر داغنے اور علاج معالجہ كرنا جائز ہے، اسى طرح كانوں ميں زيور پہننے كےليے سوراخ كرنا بھى جائز ہے؛ كيونكہ يہ لڑكى كى ضرورت ميں شامل ہے، حالانكہ اس سے كوئى زيادہ تكليف اور اذيت بھى نہيں ہوتى، اور نہ ہى يہ بہت زيادہ اس پر اثرانداز ہوتا ہے.

ديكھيں: فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 324 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب