اتوار 19 شوال 1445 - 28 اپریل 2024
اردو

کیا کاروباری لین دین اور مالی معاملات کے فقہی مسائل جاننا ہر شخص پر واجب ہے؟

سوال

سوال یہ ہے کہ کیا کاروباری لین دین اور مالی معاملات کے فقہی مسائل جاننا ہر شخص پر فرض عین ہے؟ کہ فارمیسی اور ادویات بنانے والی کمپنیوں کے نمائندے وغیرہ جو بھی خرید و فروخت کرے کیا پہلے تجارتی فقہی مسائل سیکھے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب مسلمان کو علم ہو کہ دنیا میں اسے پیدا کرنے کا مقصد اور ہدف اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی پابندی کرنا ہے، نیز اس کی عملی شکل بن کر اللہ تعالی کی بندگی مقصد ہے تو مسلمان کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ شریعتِ الہیہ کے احکامات سیکھنا اور شرعی چیزوں کو جاننا بھی ضروری ہے؛ کیونکہ جس چیز کے بغیر واجب عمل کی ادائیگی ممکن نہ ہو تو اس پر عمل کرنا بھی واجب ہی ہوتا ہے۔

جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (حصولِ علم ہر مسلمان پر فرض ہے۔) اس حدیث کو ابن ماجہ: (224) نے روایت کیا ہے ، نیز اس حدیث کی بہت زیادہ اسانید اور شواہد کی بنا پر اسے علامہ مزی، زرکشی، سیوطی، سخاوی، ذہبی، مناوی اور زرقانی رحمہم اللہ جمیعاً نے حسن قرار دیا ہے ، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابن ماجہ میں ذکر کیا ہے۔

اہل علم نے اس حدیث کا معنی صحیح ہونے کی واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔

جیسے کہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لیکن اس حدیث کا محدثین کے ہاں معنی درست ہے، اگرچہ اس حوالے سے بھی تھوڑا بہت ان میں اختلاف ہے۔" ختم شد
"جامع بيان العلم" (1/53)

یہی بات علامہ نووی رحمہ اللہ نے "المنثورات" (ص287) میں جبکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے "مفتاح دار السعادة" ( 1/480) میں بھی لکھی ہے۔

علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ:
"علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ علم کا کچھ حصہ ایسا ہے جو ہر ، ہر مسلمان پر سیکھنا فرض اور لازم ہے، کچھ علم ایسا ہے جو فرض کفایہ ہے، اگر کچھ لوگ علم کے اس حصے کو سیکھ لیں تو اس علاقے کے دیگر لوگوں سے یہ فرض ساقط ہو جائے گا۔" ختم شد
"جامع بيان العلم وفضله" (1/56)

چنانچہ علمائے کرام نے علم کے فرض عین حصے کے بارے میں وضاحت کی ہے کہ کتنی مقدار میں ہر مسلمان پر حصولِ علم فرض ہے، اس مناسبت سے انہوں نے یہ بتلایا ہے کہ اگر کوئی تجارتی لین دین کرتا ہے تو اس پر خرید و فروخت کے احکامات سیکھنا لازم ہے مبادا لا علمی میں کسی حرام لین دین یا سودی معاملے میں ملوث نہ ہو جائے، چند صحابہ کرام سے اس کی تائید میں آثار ملتے ہیں۔

جیسے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"ہمارے بازاروں میں صرف وہی خرید و فروخت کرے جسے دین کی سمجھ بھی ہو۔" اس اثر کو ترمذی رحمہ اللہ : (487)نے روایت کیا ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے۔ جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (تجارتی فقہی معاملات جاننے سے پہلے کوئی تجارت کرے تو وہ سود میں ملوث ہو گیا، وہ سود میں ملوث ہو گیا، وہ سود میں ملوث ہو گیا۔)
"مغني المحتاج" (2/22)

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس قدر حصولِ علم سب پر سیکھنا لازم ہے، وہ علم کا فرض حصہ ہے، جس میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:
ایسے تمام فرائض کو سیکھنا لازم ہے جس کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے اور کوئی بھی ان سے پہلو تہی نہیں کر سکتا مثلاً: زبان سے کلمہ شہادت کی گواہی اور دل سے اقرار کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔۔۔، یہ کہ اللہ تعالی ہمیشہ سے اپنی صفات اور اسما کے ساتھ متصف ہے، ان صفات سے متصف ہونے کی کوئی ابتدا نہیں ہے، نہ ہی ان صفات سے متصف ہونے کی کوئی انتہا ہے، اور اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے۔

یہ گواہی دینا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا اعمال کے بدلے کے لیے ہو گا، اور قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور جو کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے وہ حق ہے۔

دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں، جب یہ علم ہو تو اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان کو وہ تمام امور بھی معلوم ہونے چاہییں جن کے بغیر نماز ادا نہیں ہو سکتی، مثلاً: احکاماتِ طہارت اور نمازوں کے دیگر احکامات۔

یہ بھی جانے کہ رمضان کے روزے فرض ہیں، تو مسلمان پر یہ بھی لازم ہے کہ ان چیزوں کو جانے جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور جن کے بغیر روزہ مکمل نہیں ہو سکتا، یہ تمام چیزیں مسلمان کو معلوم ہونا لازم ہیں۔

اور اگر مسلمان صاحب ثروت ہے اور حج کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو پھر اس پر حج کرنا بھی فرض ہے، مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ اسے معلوم ہو کہ زکاۃ ادا کرنا کب واجب ہو جاتا ہے، اور کس چیز پر زکاۃ واجب ہو تی ہے، اور کتنی مقدار میں ہوتی ہے، مسلمان پر یہ جاننا لازم ہے کہ حج زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر ادا کرنا فرض ہے۔

اسی طرح اجمالی طور پر مزید بھی کافی چیزیں ہیں جن کا علم ہونا ضروری ہے، یہ شریعت میں ناقابل فراموش عمل ہیں، مثلاً: یہ جانے کہ زنا اور سود حرام ہے، شراب، خنزیر، مردار اور تمام نجس چیزیں کھانا پینا حرام ہے۔ لوٹ کھسوٹ، جھوٹی گواہی دینا، لوگوں کا مال باطل طریقے سے ہتھیانا، کسی بھی قسم کا ظلم کرنا، ماؤں اور بہنوں سمیت دیگر تمام محرمات ابدیہ سے نکاح کرنا، کسی بھی مومن جان کو بغیر حق کے قتل کرنا بھی حرام عمل ہے۔

تو قرآن کریم میں ایسے اور جو بھی احکامات آئے ہیں جن کے حرام یا واجب ہونے پر امت کا اجماع ہے تو انہیں بھی جاننا اور پھر ان پر عمل کرنا لازم ہے۔" ختم شد
جامع بيان العلم (1/57)

اسی طرح الموسوعةِ الفقهيةِ (30/293)میں ہے کہ:

"علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ الشیخ علامی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
ہر مکلف مرد اور عورت پر دین پانے اور ہدایت سیکھنے کے بعد فرض ہے کہ وضو، غسل، نماز، روزہ، صاحب نصاب کے لیے زکاۃ اور صاحب استطاعت کے لیے حج کا طریقہ سیکھنا واجب ہے۔

اسی طرح تاجر برادری پر خرید و فروخت کے شرعی احکام سیکھنا فرض ہے تا کہ لین دین میں کسی بھی خلاف شریعت طریقے سے بچ سکیں، یہی معاملہ دیگر پیشے اپنانے والوں کا بھی ہے۔

چنانچہ جو شخص جو بھی کام کرتا ہے اس پر اس کام سے متعلق علم اور احکامات سیکھنا واجب ہے تا کہ اپنے کام میں حرام چیزوں سے بچ سکے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: خرید و فروخت اور نکاح وغیرہ جیسے معاملات جو بنیادی طور پر واجب تو نہیں ہیں لیکن ان کاموں کو ان کی شرائط جانے بغیر کرنا حرام ہے۔" ختم شد

علامہ غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر یہ مسلمان تاجر ہے اور اس کے شہر میں سودی لین دین بہت عام ہو چکا ہے تو پھر اس پر سود سے بچنے کے لیے علم حاصل کرنا فرض ہے، جس علم کو حاصل کرنا فرض عین ہے اس کے متعلق یہی موقف درست ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ واجب عمل کو کرنے کا شرعی طریقہ کار سیکھے۔" ختم شد
ماخوذ از: "إحياء علوم الدين" (1/33)

علی بن الحسن بن شقیق رحمہ اللہ نے علامہ ابن مبارک رحمہ اللہ سے عرض کیا:
"مومن کے لیے کس چیز کو سیکھنا نہایت ناگزیر ہے؟ اور کس چیز کا علم حاصل کرنا واجب ہے؟
تو ابن مبارک رحمہ اللہ نے کہا: کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں علم حاصل کرے، اور یہ علم کسی سے سیکھنے پر ہی حاصل ہو گا۔" ختم شد
یہ قول ابن عبد البر رحمہ اللہ نے "جامع بيان العلم" (1/56) میں نقل کیا ہے۔

علامہ غزالی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"ہر شخص شب و روز کے عمومی حالات میں عبادات اور معاملات دونوں کے متعلق نت نئے مسائل کا سامنا کرتا ہے، اس لیے جو بھی نئے مسائل پیدا ہوں تو ان کے متعلق ماہرین سے پوچھے، اور اسی پر بس نہیں بلکہ آئندہ جن مسائل کے رونما ہونے کا خدشہ ہو ان کے متعلق پیشگی معلومات حاصل کرے۔" ختم شد

"إحياء علوم الدين" (1/34)

خرید و فروخت اور لین دین کا کام کرنے والے شخص کو نصیحت ہے کہ اسلامی تجارت سے متعلق مختصر کتابوں کا مطالعہ کرے، مثلاً: شیخ الفوزان کی کتاب : "الملخص الفقہی" جس کا ترجمہ: قرآن و حدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل کے نام سے شائع ہو چکا ہے کا مطالعہ کریں۔ اسی طرح عبد اللہ المصلح اور صلاح صاوی کی کتاب: "ما لا يسع التاجر جهله"کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب