جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

روزے کے دوران پانی والے ائیر کولر کی ہوا میں سانس لینے کا حکم

سوال

میرا ایک سوال ہے کہ پانی والے ائیر کولر کے سامنے بیٹھ کر روزے کی حالت میں سانس لینے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ اس کولر میں پانی ڈالا جاتا ہے اور تبھی اس میں ہوا ٹھنڈی ہوتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پانی والے ائیر کولر کو رمضان میں دن کے وقت استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی اس کی ہوا میں سانس لینے کو نواقض روزہ میں شمار کیا جاتا ہے چاہے اس میں پانی کیوں نہ ڈالا جائے، اور اگر فرض کر لیا جائے کہ بسا اوقات پانی کے قطرے ہوا کے ساتھ آ جاتے ہیں تو وہ ہوا ہی میں ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں، اس طرح منہ یا ناک میں پانی کے بخارات یا قطرے نہیں پہنچتے، اور نہ ہی اس میں سے کچھ روزے دار کے پیٹ تک پہنچتا ہے۔

ہوا کو ناک کے ذریعے کھینچنا مباح عمل ہے، اور ائیر کولر کی ہوا میں بخور [خوشبو دار دھواں] جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، نہ ہی ائیر کولر میں ڈالے گئے پانی کے ہوا میں ذرات باقی رہتے ہیں، خصوصاً ایسی صورت میں جب ائیر کولر قدرے فاصلے پر ہو اور انسان ہوا دینے والی جگہ کے سامنے بھی نہ ہو۔

تاہم اگر ایسا ہو بھی گیا کہ روزے دار ائیر کولر کے بہت قریب تھا اور اس کے منہ میں پانی کا کوئی چھینٹا وغیرہ چلا گیا تو وہ اسے فوری طور پر تھوک دے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (66079 ) اور (289121 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان ائیر کولر کے چلنے کے دوران پیاس کی شدت کم محسوس کرے بالکل ایسے ہی کہ جیسے روزے دار ٹھنڈے موسم میں پیاس کی شدت کم محسوس کرتا ہے، تو اس لیے اس کا روزے پر کوئی منفی اثر نہیں ہے، نیز یہ ہوا میں پانی کے بخارات کی وجہ سے بھی نہیں ہے؛ بلکہ یہ فضا کے پانی کے باعث ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے ہے؛ جبکہ ائیرکنڈیشنڈ سے حاصل ہونی والی ٹھنڈ ائیر کولر سے حاصل ہونے والی ٹھنڈ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ نیز ٹھنڈی ہوا میں سانس لینا جسم اور بدن پر ٹھنڈا پانی ڈالنے سے زیادہ مؤثر نہیں ہے؛ کیونکہ جسم پر لگنے والے پانی سے صرف پیاس ہی کم محسوس نہیں ہوتی بلکہ جلد پانی کو اپنے اندر جذب بھی کرتی ہے، لیکن اس کے باوجود اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے کہ:
"باب ہے روزے دار کے غسل کرنے کے بارے میں" سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روزے کی حالت میں اپنا کپڑا گیلا کر کے اپنے آپ پر ڈال لیا تھا۔ اسی طرح امام شعبی رحمہ اللہ روزے کی حالت میں حمام میں غسل کے لیے گئے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: روزے دار پر کلی کرنے اور جسم کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پانی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرا [ابزن نامی] پانی کا ایک حوض ہے میں روزے کی حالت میں اس میں داخل جاتا ہوں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری" (4/197) میں اس کی تفصیل میں کہتے ہیں:
"ابزن، پتھر کو تراش کر بنایا گیا حوض ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ ابزن نامی حوض پانی سے بھرا ہوتا تھا، اور جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو گرمی محسوس ہوتی تو اس کے پانی میں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے داخل ہو جاتے تھے۔" ختم شد

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے اس قول میں ابزن سے مراد لگتا ہے کہ باتھ ٹب (Bathtub)ہے۔

اسی طرح ابو بکر اثرم رحمہ اللہ نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنے شاگردوں کے ہمراہ ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں حمام گئے۔
"المغنی" (3/18)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک بار پوچھا گیا:
ماہ رمضان میں دن کے وقت بار بار نہانے کا کیا حکم ہے؟ یا ہر وقت اے سی کے سامنے بیٹھے رہنے کا کیا حکم ہے، نیز اگر ائیر کولر سے پانی کے چھینٹے بھی نکلتے ہوں تو پھر اس کے سامنے بیٹھنے کا کیا حکم ہو گا؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"گزشتہ سوال کے جواب میں ہم دلائل ذکر کر چکے ہیں کہ یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی گرمی سے بچاؤ کے لیے ، یا روزے کی حالت میں پیاس سے بچنے کے لیے سر پر پانی بہایا کرتے تھے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روزے کی حالت میں گرمی یا پیاس کی شدت کو کم کرنے کے لیے اپنے کپڑے کو پانی سے گیلا کر لیا کرتے تھے، پانی کی رطوبت سے روزے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا؛ کیونکہ رطوبت معدے تک پہنچنے والا پانی نہیں ہوتا۔" ختم شد

"مجموع فتاوی ابن عثیمین" (19/ 285)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب