ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

ملازم پر ذمہ داری بہت زیادہ ہے، جن میں سے اکثر پوری کرتا ہے، لیکن بعض صرف کاغذی طور پر پوری ہوتی ہیں، تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

سوال

میں پرائیویٹ سیکٹر کی ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں، ہم ماہانہ بنیادوں پر مکمل ہونے والے کام کو تعداد اور پوائنٹس کی صورت میں شمار کرتے ہیں، پھر ان پوائنٹس کو جمع کر کے سالانہ اضافہ یا الاؤنس دیا جاتا ہے، جس ڈیپارٹمنٹ میں میری ڈیوٹی ہے یہ ملازمین کی ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں ہم لوگ ملازمین کے لیے اہداف اس انداز سے مقرر کرتے ہیں کہ جن کو پورا کرنا اکثر ملازمین کے لیے مشکل ہوتا ہے، ہاں البتہ اگر ملازمین چھٹی کے دنوں میں بھی کام کریں تو ممکن ہے، یا اپنی ڈیوٹی سے قبل اور بعد میں اضافی وقت لگائیں تو تب بھی ممکن ہے، ان دو صورتوں کے علاوہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کام پورا کر سکیں۔

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا مجھے گناہ ہو گا ، یا میری آمدن میں حرام شامل ہو گا کہ اگر میری ذمہ داریوں میں سے کچھ حصہ مکمل نہ ہوں، واضح رہے کہ یہ نہ مکمل ذمہ داریاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں میں اور میرے تمام ساتھی بڑی مشکل سے مکمل کر پائیں گے، انہیں ہم ظاہر تو یہی کرتے ہیں کہ یہ مکمل ہیں، لیکن ان کا معمولی سا حصہ نا مکمل ہوتا ہے، مثلاً: کام کا 90 فیصد حصہ مکمل ہوتا ہے، صرف 10 فیصد نامکمل ہوتا ہے، اس بارے میں ہم نے افسران بالا سے بات بھی کی ہے، لیکن بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ملازم پر وہ تمام تر کام اور ذمہ داریاں ادا کرنا لازم ہوتا ہے جو معاہدے میں ذکر کی گئی ہوں، چنانچہ اگر کوئی ملازم اپنی ان ذمہ داریوں میں کوتاہی کا شکار ہوتا ہے تو وہ اتنی ہی تنخواہ کا حقدار ہو گا جتنا اس نے کام کیا تھا۔

اور اگر کام کی مقدار وقت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو تو ملازم کو اختیار ہے کہ اپنی ملازمت کو جاری رکھے یا ملازمت عارضی کنٹریکٹ ہو تو تجدید نہ کروائے، یا ماہانہ تنخواہ کی بنیاد پر ہو تو پھر مہینے کے بعد کام سے معذرت کر لے۔

لیکن اگر معاہدے میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں قبول کر لے تو اب اس کے لیے اس میں کسی قسم کی کوتاہی کرنے کا جواز نہیں ہے۔

آپ نے جو ذکر کیا ہے کہ کام کے مکمل ہونے کی غیر حقیقی رپورٹ بھیجی جاتی ہے تو یہ دھوکا دہی، اور باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے کے مترادف ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ
 ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے مال کو آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ، الا کہ تمہارے درمیان تجارت باہمی رضا مندی سے ہو۔ [النساء: 29]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کسی بھی شخص کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہے) اس حدیث کو امام احمد: (20172) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے ارواء الغلیل: (1459) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔) مسلم: (102)

اس لیے آپ مطلوبہ شکل میں کام کرنے کی پوری کوشش کریں، اور کوشش کریں کہ افسران بالا تک اس کی رپورٹ کرتے رہیں۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی مدد فرمائے، اور اپنے فضل سے رزق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب