جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

برے اخلاق کی مالک بیوی کوطلاق

34571

تاریخ اشاعت : 30-05-2004

مشاہدات : 5733

سوال

میرے سالے کی بیوی اپنی ساس کے ساتھ برے اخلاق اوربے ادبی سے پیش آتی اوراس کی ہمیشہ بے عزتی کرتی ہے ، ساس میری بیوی کوٹیلی فون کرکے بہو سے تنگ آکر روتی ہے میری ساس کی ایک ہی بیٹی اورایک بیٹا ہے ، کئی بار شکوی شکایت کے بعد انہوں نے بہو کے گھروالوں سے بات کرکے ان کی بیٹی معاملات کی شکایت بھی کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ۔
اورنہ ہی معاملہ سدھرتا نظر آتا ہے اس لیے انہوں نے طلاق کا سوچا اوراسے طلاق دے دی توکیا ایسا کرنا صحیح تھا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اصل میں طلاق مکروہ ہے جس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

جولوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں وہ چار مہینے انتظار کریں اگرتووہ باز آجائيں اورواپس آجائيں تو اللہ تعالی بخشنے والا اوررحم کرنے والا ہے ، اوراگروہ طلاق دینے کا عزم کرلیں تو اللہ تعالی سننے اورجاننے والا ہے ۔

اللہ تعالی نے لوٹنے کےبارہ میں فرمایا کہ بخشنے والا اوررحم کرنے والا ہے ، اورطلاق میں فرمایا : سننے والا اورجاننے والا ہے تواس میں کچھ تھدید اور ڈراویا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں طلاق مکروہ اورناپسندیدہ ہے ۔

لیکن بعض اوقات حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ طلاق کے بغیر کوئي چارہ ہی نہيں ہوتا ، بلکہ بعض اوقات تومعاملہ طلاق کے وجوب تک جا پہنچتا ہے ، توجوحالات سائل نے ذکر کیے ہیں اس میں ہوسکتا ہے کہ مناسب حل طلاق ہی ہو ۔

اس لیے کہ خاوند کے بیوی پرحقوق میں شامل ہے کہ وہ اس کے خاندان والوں کی عزت و توقیر اوراحترام کرے ، اورپھر خاص کر ساس جو کہ خاوند کی والدہ بھی ہے کیونکہ آدمی پر والدہ کا حق بیوی کے حق سے مقدم ہے ، تو اس لیے بیوی کوخاوند کی والدہ کے بارہ میں ادب و احترام اورصلہ رحمی میں خاوند کا معاون و مدد گار ہونا چاہیے ۔

علماء رحمہم اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ طلاق ضرورت کے وقت مباح ہے ( جب اس کی ضرورت پیش آۓ بیوی کے برے اخلاق اوراس کی بری معاشرت اوررہن سہن اوربغیر کسی غرض کے ضرر اورنقصان دینے کی حالت میں ) دیکھیں المغنی ابن قدامہ ( 10 / 324 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب