جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

بیٹے کا اپنے والد کی ربیبہ سے شادی کرنا

33711

تاریخ اشاعت : 11-09-2004

مشاہدات : 17961

سوال

کیا میرے لیے اپنے والد کی بیوی کی بیٹی ( جو کہ پہلے خاوند سے ہے ) سے شادی کرنا جائز ہے جسے میرے والد نے ا پنی گود میں پالا ہے ، مجھے اس میں کچھ حرج محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ میرے والد کی بیوی کی بیٹی ہے ، اگرہم شادی کرلیں اوربچے پیدا ہوں تو کیا ہوگا ، کیا ایسا کوئي واقعہ سلف صالحین کے دورمیں ملتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ کی سوتیلی والدہ کی پہلے خاوند سے جوبیٹی ہے اسے آپ کے والد کی ربیبہ کہا جائے گا ، اس لڑکی کی والدہ سے جب آپ کے والد نے شادی کرلی اوردخول کرلیا تو یہ لڑکی صرف آپ کے والد پر حرام ہوگی ، چاہے اس نے اس لڑکی کی پرورش کی ہو یا پھر بڑی عمر کی ہو اورآپ کے والد نے اس کی پرورش نہ کی ہو ۔

سلف اورخلف میں سے جمہور علماء کرام اورآئمہ اربعہ کا مسلک یہی ہے ، اوراللہ تعالی نے جب حرام کردہ عورتوں کا ذکر کیا تو فرمایا :

حرام کی گئيں تم پر تمہاری مائیں اورتمہاری لڑکیاں اورتمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ، اورتمہاری خالائيں اوربھائي کی لڑکیاں اوربہن کی لڑکیاں ، اورتمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اورتمہاری دودھ شریک بہنیں ، اورتمہاری ساس ، اورتمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہيں کیا توپھر تم پر کوئي گناہ نہیں ، اورتمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں ، اورتمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ، ہاں جو گزر چکا سوگزرچکا ، یقینا اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے النساء ( 23 ) ۔

اورآپ کی متعلق یہ ہے کہ ربیبہ آپ پرحرام نہیں کیونکہ وہ آپ کے والد کی بیوی کی وہ بیٹی ہے جو اس کے پہلے خاوند سے ہے اورآپ سے اس کا کوئي تعلق نہیں اس لیے آپ اس سے بغیر کسی حرج کے شادی کرسکتے ہیں ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے والد کی بیوی کی بیٹی سے شادی کے بارہ میں سوال کیا گيا تو اس نے جواب دیا :

مذکورہ بچے کےلیے اس لڑکی سے شادی کرنا جائز ہے اگرچہ اس کے والد نے لڑکی کی والدہ سے شادی بھی کی ہو ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اور اس کے علاوہ باقی عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں النساء ( 24 ) ۔

مذکورہ لڑکی ان عورتوں میں شامل نہيں جو اس سے پہلی آیت میں بالنص ذکر کی گئي ہیں اورنہ ہی اس کا سنت نبویہ کوئي ذکر ملتا ہے ۔ ا ھـ

دیکھیں الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 600 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب