جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اولاد كے سامنے بيوى كا بوسہ لينا

31773

تاریخ اشاعت : 16-09-2011

مشاہدات : 8147

سوال

خاوند اور بيوى اپنى اولاد كے سامنے كس حد تك لطف اندوز ہو سكتے ہيں، كيا اولاد كے سامنے ايك دوسرے سے معانقہ كر سكتے ہيں، يا بوسہ لے سكتے اور ايك دوسرے كا ہاتھ پكڑ سكتے ہيں يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس مسئلہ ميں شرعى حكم كى تفصيل درج ذيل ہے:

اول:

اگر تو يہ معانقہ اور بوسہ لينا بالكل اسى جنس سے ہو جو وہ خلوت ميں كرتے ہيں تو يہ كام اولاد كے سامنے كرنا جائز نہيں، چاہے بچے چھوٹے ہوں يا بڑى عمر كے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تمہارے غلاموں اور نابالغ بچوں كو تين اوقات ميں تم سے اجازت لينى ضرورى ہے، نماز فجر سے قبل اور ظہر كے وقت جب تم اپنا لباس اتار ركھتے ہو، اور عشاء كى نماز كے بعد، يہ تينوں وقت تمہارى ( خلوت ) اور پردہ كے ہيں، ان وقتوں كے علاوہ تم پر كوئى گناہ نہيں اور نہ ہى ان پر كوئى گناہ ہے، تم سب آپس ميں ايك دوسرے كے پاس بكثرت آنے جانے والے ہو، اللہ اس طرح كھول كھول كر اپنے احكام تم سے بيان فرما رہا ہے، اور اللہ تعالى پورے علم والا اور كامل حكمت والا ہے

اور تمہارے بچے بھى جب بلوغت كو پہنچ جائيں تو جس طرح ان سے پہلے لوگ اجازت مانگتے ہيں انہيں بھى اجازت مانگ كر آنا چاہيے، اللہ تعالى تم سے اسى طرح اپنى آيات بيان كرتا ہے، اور اللہ تعالى علم و حكمت والا ہے النور ( 58 ـ 59 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ليے ملازموں اور بچوں كو حكم ديا جائيگا كہ وہ ان اوقات ميں گھر والوں كے پاس ہجوم مت كريں، كيونكہ خدشہ ہے كہ آدمى اپنى بيوى كے پاس ہو يا كسى اور كام ميں مشغول ہو " اھـ

ديكھيں تفسير ابن كثير ( 3 / 401 ).

اس ليے جب بچوں پر ان اوقات ميں اجازت لينى واجب ہوئى تا كہ وہ خاوند اور بيوى كے مابين جو تعلقات ہوتے ہيں انہيں نہ ديكھ پائيں، تو پھر عمدا اس عمل كا اظھار كرنا كيسا ہوگا ؟

آپ ذرا اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر كو ديكھيں جس وہ انتہائى ادب پايا جاتا تھا جسے صحابہ كرام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نقل كيا ہے:

عبد اللہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے غلام كريب بيان كرتے ہيں كہ انہيں عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے بيان كيا كہ انہوں نے اپنى خالہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زوجہ ام المومنين ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ہاں رات بسر كى وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں تكيہ كے عرض يعنى چوڑائى ميں ليٹ گيا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ اور آپ كى بيوى اس كى لمبائى ميں ليٹ گئے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نصف رات يا اس سے كچھ قبل يا نصف رات كے كچھ بعد تك سوتے رہے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيدار ہوئے تو اپنے چہرے سے ہاتھ كے ساتھ نيند كو دور كر رہے تھے، پھر آپ نے سورۃ آل عمران كى آخرى دس آيات كى تلاوت كى ...... "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4571 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 763 ).

امام نووى رحمہ اللہ اس حديث كى شرح ميں لكھتے ہيں:

" اس حديث ميں اس بات كى دليل پائى جاتى ہے كہ اگر كوئى شخص كسى محرم آدمى كى موجودگى ميں اپنى بيوى كے ساتھ سو جائے ليكن تعلقات قائم نہ كرے تو يہ جائز ہے.

قاضى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس حديث كى كچھ روايات ميں آيا ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے بيان كيا:

" ميں نے اپنى خالہ كے ہاں ايك رات بسر كى جن ايام ميں وہ حيض كى حالت ميں تھيں.

قاضى بيان كرتے ہيں كہ: اگرچہ اس كلمہ كى روايت كا طريقہ اگرچہ صحيح نہيں ليكن يہ معنى كے اعتبار سے بہت جيد ہے، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں وہى رات بسر كى جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بيوى سے كوئى حاجت نہ تھى اور ان كے باپ عباس رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى انہيں اس وقت ہى وہاں جانے كا كہا جب انہيں علم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بيوى كى حاجت نہيں ہے.

اس ليے كہ يہ تو معلوم ہے كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى موجودگى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى حاجت پورى نہيں كرينگے، اور خاص كر جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے افعال كى نگرانى كر رہے تھے، كيونكہ ابن عباس يا تو بالكل ہى نہيں سوئے، يا پھر بہت تھوڑى نيند كى " اھـ

اس ليے كہ اس كا اظھار مروت كے خلاف شمار ہوتا ہے.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 6 / 46 ).

الماوردى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" مروت يہ ہے كہ حالات كا اس حد تك خيال كيا جائے كہ اس كا افضل و بہتر ہو تا كہ اس سے قصدا كوئى قبيح ظاہر نہ ہو اور نہ ہى بطور استحقاق اس كى جانب مذمت متوجہ كى جا سكے " اھـ

ديكھيں: ادب الدنيا و الدين ( 392 ).

اور پھر اس طرح كا كام كرنے ميں جو تربيتى لحاظ سے خرابياں پائى جاتى ہيں وہى اسے ممنوع قرار دينے كے ليے كافى ہيں، كيونكہ بچوں كى فطرت ميں داخل ہے كہ وہ ہر قسم كے معاملات ميں والدين كى نقل كرتے ہيں، اس ليے خدشہ ہے كہ كہيں ان ميں سے كوئى غفلت اور بے سمجھى ميں اس كى نقل كرتے ہوئے ويسے ہى كر بيٹھے تو يہى خرابى كافى ہے.

پھر يہ بھى كوئى پتہ نہيں كہ بچوں ميں سے كوئى بچہ لوگوں ميں وہى كچھ بيان كرتا پھرے جو اس نے والدين كو كرتے ہوئے ديكھا تھا، اس ميں جو بےشرمى اور خرج پايا جاتا ہے وہ كسى سے مخفى نہيں.

دوم:

ليكن اگر محبت و مودت اور الفت اور جذبات كى بنا پر كيا جائے جس سے گھر سكون و اطمنان اور محبت و سعادت سے بھر جاتا ہے خاص كر عيد وغيرہ كے تہوار پر تو يہ جائز ہے.

اور پھر اس كا اظھار تو اولاد كے ليے راحت نفسى كا باعث ہوگا كہ وہ اپنے گھر ميں والدين كے مابين اتفاق و اتحاد ديكھ كر مطئمن ہونگے.

اس ليے اس نرمدلى كے اظھار ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ صرف اس حد تك ہو كہ يہى غرض پورى ہو اور اس ميں تھوڑى سى بھى ممانعت كا شائبہ نہ پايا جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب