جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

قرآن کریم کی تلاوت کے بعد دعا

سوال

کیا قرآن مجید کی تلاوت کے بعد درج ذیل دعا پڑھنا صحیح ثابت ہے؟   سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ   اگر یہ دعا ثابت نہیں تو پھر یہ بھی بتلائیں کہ کیا کوئی ایسی مخصوص دعا ہے جو قرآن مجید کی تلاوت کے بعد پڑھی جائے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

امام نسائی رحمہ اللہ"السنن الكبرى" (10067) میں اور اسی طرح: "عمل اليوم والليلة" (308) میں جبکہ امام طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الدعاء" کی حدیث نمبر: (1912) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، آپ کہتی ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی کسی مجلس میں بیٹھتے، آپ جب کبھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے، یا نماز ادا کرتے تو اپنی نماز کی مجلس کو بھی چند مخصوص کلمات پر ختم فرماتے تھے، اس پر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ کو میں جب بھی کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے دیکھوں، چاہے آپ قرآن کریم کی تلاوت کریں یا نماز پڑھیں تو آپ مخصوص کلمات کہتے ہیں !؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہاں عائشہ تم صحیح کہتی ہو، میں اس لیے ان کلمات پر اپنی مجلس کا اختتام کرتا ہوں کہ اگر کوئی خیر کی بات کہی ہو گی تو اس پر خیر کی مہر ثبت ہو جائے گی، اور اگر کسی نے کوئی بری بات کی ہو گی تو یہ دعا اس کے لیے کفارہ بن جائے گی:   سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ   [ترجمہ: اللہ تو پاک ہے، تیرے لیے ہی تعریفیں ہیں، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔)" اس حدیث کو امام البانیؒ نے سلسلہ صحیحہ: (3164) میں صحیح قرار دیا ہے۔

مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح فرمایا کہ یہ کفارہ مجلس کی دعا ہمہ قسم کی مجلس کے بعد پڑھی جائے گی چاہے یہ مجلس ذکر کی ہو یا فضولیات پر مشتمل ہو، تاہم خیر کی مجلس ہونے پر اس مجلس کے بارے میں خیر کی مہر ثبت ہو جائے گی۔

علامہ سندی ؒ کہتے ہیں:
"مطلب یہ ہے کہ کفارہ مجلس کی دعا؛ خیر کو اس مجلس کے لیے ثابت کر دے گی، یعنی اسے قبولیت کے قریب کر دے گی اور نیکی کے مسترد ہونے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔"

اور اگر مجلس فضولیات پر مبنی ہوئی تو یہ دعا ان فضولیات کے لیے کفارہ بن جائے گی۔
مزید کے لیے آپ "مرعاة المفاتيح" (8/ 204) کا مطالعہ کریں۔

اس لیے اپنی مجلس کے اختتام پر اس دعا کو پڑھنا مسلمانوں کے لیے مستحب ہے، چاہے وہ کسی بھی قسم کی مجلس ہو، نماز پڑھے، یا اپنے دوست احباب کے ساتھ بیٹھے، یا اہل خانہ کے ساتھ گپ شپ لگائے، یا کسی کے درمیان صلح صفائی کے لیے کوشش کرے یا کوئی بھی مجلس ختم کرنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھ لے، یہ دعا اٹھنے سے فوری پہلے پڑھے اور مجلس برخاست کر دے۔

اس کے متعلق پہلے بھی سوال نمبر: (223561 ) کے جواب میں گفتگو گزر چکی ہے۔

دوم:

قرآن کریم کی تکمیل اور ختم قرآن کے موقع پر کوئی خاص دعا ثابت نہیں ہے، نہ سوال میں مذکور دعا ختم قرآن کی خاص دعا ہے اور نہ ہی کوئی اور دعا ختم قرآن کے لیے خاص ہے؛ کیونکہ پہلے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس دعا کو پڑھنے کا مقصد ختم قرآن وغیرہ کے وقت پڑھنا مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ دعا تمام مجالس کے اختتام پر پڑھی جا سکتی ہے۔

البتہ اتنا ہے کہ اہل علم ختم قرآن کی مجالس میں حاضری کو مستحب قرار دیتے ہیں، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ختم قرآن کی مجالس میں حاضری تاکیدی طور پر مستحب ہے۔" ختم شد
"التبيان في آداب حملة القرآن" (159)

اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/ 126) میں کہتے ہیں:
"ختم قرآن کے وقت اپنے اہل خانہ کو دعا میں شرکت کے لیے جمع کرنا مستحب ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: سیدنا انس رضی اللہ عنہ قرآن کریم کی تکمیل کے وقت اپنے اہل خانہ اور بچوں کو جمع کر لیتے تھے۔

یہی عمل سیدنا ابن مسعود اور دیگر سے بھی منقول ہے۔"

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (65581 ) اور (37683 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب