جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ کے بیک گراؤنڈ میں قرآنی آیات لگانے کا حکم

سوال

میں نے سورت اخلاص، الفلق ،الناس ، اور آیت الکرسی سمندر کی تہہ میں موجود مچھلیوں والے بیک گراؤنڈ میں لگائی تھیں، اسی طرح اس سے پہلے ستارہ مچھلی والے بیک گراؤنڈ میں لگائیں تھی، ایسے ہی سیپیوں والے بیک گراؤنڈ پر لگائیں تو کیا یہ جائز ہے؟ یا مجھے یہ تصاویر ڈیلیٹ کر دینی چاہییں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کمپیوٹر یا موبائل وغیرہ کے بیک گراؤنڈ میں قرآنی آیات لگائی جا سکتی ہیں لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں:

  1. قرآنی آیات لگانے کا مقصد نصیحت اور یاد دہانی ہو، خوبصورتی مقصود نہ ہو۔
  2. قرآنی آیات عثمانی طرز تحریر میں واضح لکھی جائیں کہ انہیں پڑھنا ممکن ہو، کیلی گرافی یا ایسے ڈیزائن میں نہ لکھی جائیں جنہیں پڑھنا ہی ممکن نہ ہو، نہ ہی آیات کو کسی پرندے یا جانور کی شکل میں لکھا جائے۔
  3. قرآنی آیات کے بیک گراؤنڈ میں موسیقی اور اسی طرح کی کوئی اور حرام چیز نہ چلے۔

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دفتروں اور اسکولوں میں آیات اور احادیث یاد دہانی اور نصیحت کے لئے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى شیخ ابن باز " ( 9 / 513)

رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرارداد میں ہے جو کہ ایک یا متعدد آیات پرندے، یا کسی اور چیز کی شکل میں لکھنے کے متعلق ہے کہ:
"تمام تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں درود و سلام ہوں ہمارے آخری نبی سیدنا محمد ﷺ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر، بعد ازاں: رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم اسلامی فقہ اکیڈمی کی کابینہ نے اپنے مکہ مکرمہ میں 15 رجب تا 1410 ہجری بمطابق 10 فروری 1990 بروز ہفتہ تا 22 رجب 1410 ہجری بمطابق 17 فروری 1990 کو منعقد ہونے والے بارہویں اجلاس میں ایک یا متعدد آیات پرندے کی شکل میں لکھنے کے متعلق بحث کی اور سب نے اجتماعی طور پر متفقہ فیصلہ دیا کہ یہ عمل جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ فضول کام ہے اور کلام اللہ کی بے حرمتی ہے اور اہانت ہے، اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔" ختم شد
ماخوذ از: "قرارات المجمع الفقهي"، صفحہ: 271

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ قرآنی آیات مختلف ڈیزائنوں میں لکھتے ہیں جس سے وہ آیات کم اور ڈیزائن زیادہ معلوم ہوتے ہیں، بلکہ کچھ تو یہاں تک بھی کرتے ہیں کہ قرآنی آیات کو پرندے اور جانور کی شکل میں لکھ دیتے ہیں، یا نماز کے تشہد میں بیٹھے ہوئے شخص کی صورت میں لکھ دیتے ہیں، تو ایسے لوگ آیات کو حرام طریقے سے لکھ رہے ہیں، بلکہ ایسی تصویر اِن آیات سے بنا رہے ہیں جس تصویر کے بنانے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے۔

اس سے مزید آگے جائیں تو علمائے کرام کا اس بارے میں مختلف نکتہ نظر ہے کہ کیا قرآنی آیات کو طرزِ عثمانی سے ہٹ کر لکھنا جائز ہے یا نہیں؟

اس بارے میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:
کچھ کہتے ہیں کہ مطلق طور پر جائز ہے، چنانچہ ان کے ہاں ہر جگہ اور زمانے کا اعتبار کرتے ہوئے اس وقت کے معروف طریقے کے مطابق لکھا جائے ، شرط یہ ہے کہ عربی حروف میں لکھیں۔

کچھ کہتے ہیں کہ مطلق طور پر ناجائز ہے، تو ان کے ہاں قرآن کی آیات کو عثمانی طرزِ کتابت کے مطابق لکھنا واجب ہے۔

کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ: قرآنی آیات کو لکھنے کے لئے ہر علاقے اور زمانے کے عرف کے اعتبار سے ایسا طرزِ کتابت اپنایا جائے جس سے بچوں کو سکھانا آسان ہو اور وہ قرآن کریم صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا سیکھ جائیں، لیکن بڑوں کے لئے صرف رسمِ عثمانی کے تحت ہی لکھنا ہوگا۔

لیکن جو شخص قرآنی آیات کے مختلف ڈیزائن بنا دیتے ہیں یا کسی جانور کی شکل بنا دیتے ہیں تو اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔

چنانچہ مومن کو کتاب اللہ کا احترام کرنا چاہیے اور قرآن کریم کی تعظیم کرے، لہذا اگر کوئی عبارت کسی مخصوص ڈیزائن اور صورت وغیرہ میں ڈھالنا چاہتا ہے تو وہ لوگوں کی زبانوں پر مشہور اقوال زریں وغیرہ لکھ لے۔ لیکن قرآنی الفاظ اور آیات کو نقش و نگار اور تصاویر کی صورت میں لکھے یہ درست نہیں ہے، اس کی قبیح ترین صورت یہ ہے کہ ان آیات سے کسی جانور یا آدمی کی شکل بنا دے، تو یہ قبیح اور حرام عمل ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (4/ 2)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (150701) اور : (254) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب