جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ماہ رمضان کو عبادت کے لئے منتخب کرنے کی حکمت

سوال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہ رمضان کو ہی عبادت کے لئے کیوں منتخب فرمایا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی کی ذات علم اور حکمت والی ذات ہے، مومن کو بسا اوقات اللہ کے شرعی حکم کی حکمت معلوم ہو جاتی ہے تو کبھی نہیں بھی ہوتی، تو دوسری صورت میں مومن بھی وہی کہتا ہے جو فرشتوں نے کہا تھا:

سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

 ترجمہ: تو پاک ہے، جتنا تو نے ہمیں علم دیا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی علم نہیں، بیشک تو ہی علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے۔ [البقرة:32]

اللہ تعالی نے کچھ اوقات کو فضیلت عطا کی ہے، اسی طرح کچھ مخلوقات کو بھی فضیلت عنایت فرمائی ہے، یہ فضیلت اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب سے خصوصی کرم نوازی ہیں، اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے۔

ہمیں یقینی طور پر ماہ رمضان کو عبادت کے لئے منتخب کرنے کی حکمت کا علم نہیں ہے۔

اللہ تعالی ہی خالق اور ساری کائنات کا مالک ہے، اللہ تعالی نے وقت کی تخلیق فرمائی تو ان میں سے کچھ اوقات کو دیگر پر شرف عطا فرمایا۔ اسی طرح جگہیں پیدا کیں تو ان میں سے بھی کچھ کو دوسروں پر فوقیت عطا کی۔ اسی طرح لوگوں کو پیدا کیا تو ان میں سے بھی کچھ افراد کو دوسروں پر فضیلت عنایت فرمائی، یہ کرم نوازی اللہ تعالی کی کمال عظمت میں شامل ہے کہ اس کی انتہا تک کسی کو دسترس حاصل نہیں ہے، یہ عنایتیں اللہ کی کامل بادشاہت میں شامل ہیں جس کی معرفت سے ہی تمام مخلوقات عاجز ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (74) اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ (75) يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

ترجمہ: انہوں نے اللہ کی کما حقہ قدر ہی نہیں پہچانی ۔ اللہ تعالی تو بڑا طاقتور اور ہر چیز پر غالب ہے۔ [74] اللہ فرشتوں میں سے بھی پیغام لے جانے والے چن لیتا ہے اور لوگوں میں سے بھی۔ بیشک اللہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [75] جو کچھ ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے وہ سب جانتا ہے، اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ [الحج: 74 - 76]

مخلوقات کی درجہ بندی اللہ تعالی کی کامل مشیئت، مکمل آزادی ، عظمتِ ربوبیت، اور اللہ تعالی کی شاہی میں شامل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

 كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ

 ترجمہ: آپ ان مشرکوں کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں وہ ان پر گراں گزرتی ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنی طرف سے اسی کو راہ دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ [الشورى:13]

ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:

 وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ: اور تیرا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور [جسے چاہے ]اپنے ہاں چنیدہ بنا لیتا ہے، ان مخلوقات کو اس میں کوئی اختیار نہیں ہے، اللہ پاک ہے، اور ان کے شریکوں سے بلند و بالا ہے۔[القصص:68]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی مطلب یہ ہے کہ: کسی بھی چیز کو چنیدہ بنانے کا اختیار مخلوق کے پاس نہیں ہے، بلکہ اس کا مکمل اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، تو چنانچہ جس طرح مخلوق کو پیدا کرنے میں وہ یکتا ہے اسی طرح ان کی درجہ بندی میں بھی وہ یکتا ہے، اس لیے کسی کے پاس کسی کو پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے نہ ہی اسے درجہ بندی دینے کا اختیار ہے؛ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے کہ کس چیز کو اپنے ہاں چنیدہ بنانا ہے، اسے اپنی پسندیدہ جگہوں کا بھی علم ہے، اسے یہ بھی علم ہے کہ کون سی چیز چنیدہ بنائی جائے اور کون سی نہ بنائی جائے، ان تمام امور میں کوئی بھی کسی بھی انداز میں اس کا شریک نہیں ہے۔"

اس کے بعد مزید لکھتے ہیں:
"پھر جب آپ ان مخلوقات کے خواص پر غور و فکر کریں گے تو آپ کو انہیں چنیدہ بنا کر خاص کرنے میں ایسی نشانیاں پائیں گے جو اللہ تعالی کی ربوبیت، وحدانیت ، کمال حکمت، علم اور قدرت کی دلیل ہیں، نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالی ہی یکتا معبود بر حق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں جو اس جیسی مخلوق پیدا کر سکے، اس کی طرح اشیا کو چنیدہ بنا سکے، نیز اس کی طرح معاملات چلا سکے۔

تو یہ چنیدگی، معاملات چلانا اور کسی بھی چیز کو خاص مقام دینا ان سب کے اس جہان میں نمایاں اثرات ہم دیکھتے بھی ہیں، یہ تمام چیزیں اللہ تعالی کی ربوبیت، وحدانیت ، اس کی کمال درجے کی صفات اور رسولوں کی صداقت کے شواہد ہیں، چنانچہ ہم ان میں سے چند ایک کی طرف محض اشارہ ہی کریں گے جن سے دیگر شواہد کی جانب راستے کھل سکتے ہیں:

تو اللہ تعالی نے آسمان سات پیدا کیے اور ان میں سے سب سے بلند آسمان کو چنیدہ بنایا، اور اسے مقرب فرشتوں کی قرار گاہ مقرر فرمایا، اس آسمان کو اپنی کرسی اور عرش کا قرب نصیب کیا، وہاں جسے چاہا سکونت عطا فرمائی، تو اس آسمان کو دیگر تمام آسمانوں پر فضیلت حاصل ہے، اگر اسے صرف یہی خصوصیت حاصل ہوتی کہ اسے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہے تو یہی اس کی فضیلت کے لئے کافی تھا۔

آسمانوں کی ماہیت یکساں ہونے کے باوجود بھی صرف ساتویں آسمان کو اتنی فضیلت اور امتیاز مل جانا اس بات کی واضح ترین دلیل ہے کہ اللہ تعالی کمال قدرت اور حکمت کا مالک ہے، وہ جسے چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چنیدہ بنا لیتا ہے۔"

انہی مثالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے تمام فرشتوں میں سے چند کو ہی دیگر فرشتوں پر منتخب بنایا، مثلاً: جبریل، میکائیل اور اسرافیل ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے:  اَللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ أَنْتَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ 
ترجمہ : یا اللہ ! جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! سب ظاہر اور پوشیدہ کے جاننے والے ! تیرے بندوں کے مابین جو اختلاف ہوتا ہے تو ہی اس کا فیصلہ کرتا ہے ۔ تو اپنی خاص توفیق سے میری حق کی طرف رہنمائی فرما۔ بیشک تو ہی جسے چاہے سیدھی راہ کی رہنمائی فرماتا ہے ۔

تو یہاں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف ان تین فرشتوں کے نام ذکر کیے ہیں؛ کیونکہ ان کی خصوصیات کمال درجے کی ہیں نیز یہ فرشتے اللہ تعالی کے چنیدہ بھی ہیں، یہ اللہ تعالی کے مقرب فرشتے ہیں۔ پھر آسمانوں میں ان کے علاوہ کتنے ہی فرشتے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف ان تین کا ہی نام لیا ہے؛ کیونکہ جبریل وحی لے کر آتے تھے جو کہ قلب و روح کی زندگی ہے۔ میکائیل بارشیں برساتے ہیں جس سے زمین، جانداروں اور پیڑ پودوں کی زندگی وابستہ ہے۔ جبکہ اسرافیل صور پھونکنے پر مامور ہیں ، وہ جس وقت صور پھونکیں گے تو اللہ کے حکم سے تمام مردے زندہ ہو جائیں گے، اور وہ قبروں سے باہر نکل آئیں گے۔۔۔" مزید تفصیلات کے لئے "زاد المعاد" (1/42) اور اس کے بعد والے صفحات کا مطالعہ کریں۔

اسی طرح علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی اس گفتگو کے بعد مزید یہ بھی کہتے ہیں:
"بعض ایام اور مہینوں کو دیگر پر فضیلت دینے کا معاملہ بھی اسی قبیل میں سے ہے، اس لیے تمام ایام میں سے افضل ترین دن یوم النحر یعنی عید الاضحی کا دن ہے، اور یہی دن حج اکبر کا دن کہلاتا ہے۔

اسی طرح ماہ رمضان کو دیگر مہینوں پر فضیلت حاصل ہونا بھی اسی میں شامل ہے، رمضان کے آخری عشرے کو دیگر تمام راتوں پر فضیلت ، پھر لیلۃ القدر کی ایک رات کو ہزار مہینوں پر فضیلت کا تعلق بھی اسی باب میں آتا ہے۔"

"تو مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات کی ہر جنس میں سے افضل اور پاکیزہ ترین عناصر کو چنیدہ بناتا ہے، صرف انہیں اپنے لیے مخصوص فرما لیتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات بھی اعلی ہے تو اسے اعلی چیزیں ہی پسند ہیں، ایسے ہی اللہ تعالی اعمال ،اقوال اور صدقات میں سے بھی اعلی ترین ہی قبول فرما تا ہے، چنانچہ ہر چیز میں سے اعلی ترین شے اللہ تعالی نے اپنے لیے پسند کی ہوئی ہے۔" ختم شد
"زاد المعاد" (1/54،57، 64)

دوم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ماہ رمضان کو عبادت اور روزے کے لئے مختص کرنا:

اگر سائل کی مراد نبوت کے بعد ماہ رمضان کو عبادت کے لئے مختص کرنا ہو تو یہ اللہ تعالی کی جانب سے وحی کے ذریعے ہوا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی ماہ رمضان کو لوگوں کے لئے منتخب فرمایا ہے، اسی نے حکم دیا ہے کہ لوگ اس ماہ میں روزے رکھیں، اللہ کی دیگر تمام مہینوں سے زیادہ عبادت کریں، تو اس کی تفصیلات اس جواب کے پہلے حصے میں گزر چکی ہیں۔

اور اگر سائل کی مراد یہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نبوت سے قبل غار حرا میں عبادت کے لئے تنہائی اور خلوت اختیار کرتے تھے ، تو اس کی تفصیلات کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس دوران میں کیا کچھ کرتے تھے اس کے بارے میں بھی ہمیں علم نہیں ہے۔ نیز ان چیزوں کی معرفت یا لا علمی پر کوئی دینی حکم لاگو نہیں ہوتا؛ کیونکہ دین اور لوگوں کے لئے بنائی گئی مکمل شریعت وہی ہے جو نبوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لائے، جبکہ نبوت سے پہلے کے معاملات میں ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔

تاہم کچھ اہل علم نے احتمالات ذکر کیے ہیں کہ: ممکن ہے کہ یہ طریقہ کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچنے والی دینِ ابراہیم علیہ السلام کی باقیات میں شامل ہو، یہ باقیات دیگر شرک سے بیزار اور یکسو ہو کر اللہ کی بندگی کرنے والوں تک بھی پہنچی تھیں اور وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت ملنے سے بھی پہلے دین ابراہیمی پر قائم تھے۔

جیسے کہ علامہ طاہر ابن عاشور رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماہ رمضان کو دیگر تمام مہینوں میں سے اس لیے منتخب کیا گیا کہ اس مہینے کو شرف حاصل ہے کہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل ہوا، اور چونکہ قرآن کریم امت اسلامیہ کو پاکیزگی اور رہنمائی دینے کے لئے نازل ہوا، تو اسی طرح سے مناسب ٹھہرا کہ اسی ماہ میں تزکیہ نفس کا انتظام بھی ہو، اسی مہینے میں انسان فرشتہ صفت بن جائے۔

اور میرا غالب گمان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم وحی نازل ہونے سے پہلے بھی غار حرا میں عبادت کے دوران روزہ رکھا کرتے تھے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو الہام تھا، نیز دیگر جو لوگ ملت ابراہیمی پر تھے ان کے لئے تعلیم بھی تھی، تو جب ماہ رمضان میں وحی نازل ہوئی تو اللہ تعالی نے اس ماہ میں روزے رکھنا کا حکم ساری امت اسلامیہ کو بھی دیا " ختم شد
"التحرير والتنوير" (2/ 173)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب