جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

موت کے بعد روح اور جسم کے ساتھ جو بھی ہو گا کیا اس کا احساس ہو گا؟

سوال

میرا ایک بہت ہی اہم سوال ہے میں اس کے جواب کی تلاش میں ہوں، میں نے اس سوال کا جواب بہت زیادہ تلاش کیا ہے لیکن مجھے اس کا جواب نہیں ملا۔ میرے مرنے کے بعد جب ملک الموت میری روح پکڑ کر فرشتوں کے حوالے کر دے گا اور مجھے جنت کے کفن میں کفنا دیا جائے گا تو کیا مجھے اس کا احساس ہو گا؟ میں ان سب چیزوں کو محسوس کر سکوں گا ؟ اور میں فرشتوں کو دیکھوں گا کہ وہ مجھے آسمان کی طرف لے جا رہے ہیں، اور آسمان کے فرشتے میرے لیے دروازے کھلوائیں گے، فرشتے کہیں گے: یہ اچھی روح کون ہے؟ تو وہ کہیں گے: یہ فلاں شخص ہے۔ کیا میں اس چیز کو محسوس کروں گا؟ کیا میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں گا؟

مجھے اللہ تعالی کی آواز سنائی دے گی جب مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا جائے گا؟ جب اللہ تعالی فرمائے گا: اسے زمین پر لے چلو، پھر میرے ساتھ کیا ہو گا؟ اور جب مجھے زمین کی طرف لایا جائے گا تو میں کہاں جاؤں گا؟ کیا میں اپنا جسم دیکھ سکوں گا جب لوگ مجھے غسل دے رہے ہوں گے، یا لوگ مجھے قبر کی طرف لے جا رہے ہوں گے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ان معاملات کا تعلق غیبی امور سے ہے، اور ان معاملات کو من و عن تسلیم کرنا مسلمان پر لازم ہے، ان کی کیفیت کے متعلق سوال نہ کرے؛ کیونکہ برزخی زندگی کی کیفیت کے بارے میں اللہ تعالی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

روح بھی دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہے، اس کی حقیقت کے متعلق علم اللہ تعالی کا خاصہ ہے، اللہ تعالی نے اس کی حقیقت کا علم کسی کو نہیں دیا اپنے پاس ہی رکھا ہے، جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: "میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کھیت میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر پتوں کے کھجور کی چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ کے پاس سے یہودیوں کا گزر ہوا، تو انہوں نے آپس میں کہا کہ: اس سے روح کے بارے میں پوچھو، تو کسی نے کہا: تمہاری اس سوال کے بارے میں کیا رائے ہے؟ جبکہ بعض نے کہا: کہیں وہ آگے سے تمہیں ایسی بات نہ کر دے جو تمہیں ناگوار گزرے، آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ: روح کے بارے میں پوچھ لو، انہوں نے روح کے بارے میں پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کچھ دیر خاموش ہو گئے۔ مجھے محسوس ہو گیا کہ آپ پر وحی نازل کی جا رہی ہے، تو میں اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا، جس وقت وحی مکمل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا   ترجمہ: اور وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیں: روح میرے رب کے حکم سے ہے، اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔[الاسراء: 85] " بخاری

اللہ تعالی نے قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی احادیث میں روح کے کئی اوصاف بیان کیے ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں: روح کا قبض ہونا اور وفات پانا، روح کو جکڑا جاتا ہے، کفن پہنایا جاتا ہے، روح کے آنے اور جانے کا ذکر ہے، اوپر چڑھنے اور اترنے کا ذکر ہے، روح کو اس طرح سے کھینچنے کا ذکر ہے جیسے بال کو آٹے سے نکالا جاتا ہے ۔۔۔ اس لیے کتاب و سنت میں ذکر ہونے والی روح کی صفات کو ماننا ضروری ہے، تاہم یہ بات بھی واضح رہے کہ روح کا معاملہ جسم جیسا نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"انسان کی موت کا مطلب ہے کہ جسم میں سے روح نکل جائے، تو جس وقت قبر میں انسان کو دفن کیا جاتا ہے تو کیا روح کو جسم میں واپس لوٹایا جاتا ہے یا روح کہاں چلی جاتی ہے؟ اور اگر قبر میں روح کو لوٹایا جاتا ہے تو اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟"

انہوں نے جواب دیا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ میت جس وقت فوت ہو جاتی ہے تو روح کو قبر میں اس کی طرف لوٹایا جاتا ہے ، اس سے اس کے رب، دین اور نبی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، اس وقت اللہ تعالی ایمان لانے والوں کو دنیا و آخرت میں قول ثابت کے ذریعے ثابت قدم بناتا ہے، چنانچہ مومن جواب میں کہتا ہے: میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے، اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، جبکہ کافر یا منافق سے یہ سوال کیے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے: ہں، ہں! میں نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنا تھا، تو میں بھی وہی کہہ دیا کرتا تھا۔

قبر میں روح کا واپس آنا ایسا نہیں ہے کہ جس طرح دنیا میں جسم کے اندر روح آتی ہے؛ کیونکہ یہ برزخی زندگی ہے، ہم برزخی زندگی کی حقیقت نہیں جانتے؛ کیونکہ ہمیں برزخی زندگی کی حقیقت کے بارے میں بتلایا ہی نہیں گیا۔

چنانچہ وہ تمام غیبی امور جن کے بارے میں ہمیں کچھ بتلایا نہیں گیا؛ ان سب کے بارے میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم انہیں من و عن تسلیم کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَلا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً 
 ترجمہ: ایسی چیز کے پیچھے مت لگیں جس کے بارے میں آپ کو کوئی علم نہیں ہے؛ یقیناً سماعت ، بصارت اور دل ان سب چیزوں کے بارے میں باز پرس ہو گی۔[الاسراء: 36] " ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " از ابن عثیمین : (4/ 2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

دوم:

میت غسل دینے یا اٹھائے جانے کی کیفیت کو محسوس نہیں کرتی اور نہ ہی اپنے آپ کو دیکھتی ہے؛ کیونکہ روح تو جسم سے نکل چکی ہوتی ہے، اور روح کو قبر میں اسی وقت بھیجا جاتا ہے جب اس کا امتحان شروع ہوتا ہے۔

اور روح کے ٹھکانے کے بارے میں یہ ہے کہ مومن کی روح جس وقت آسمان سے اترتی ہے تو روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے اور پھر اس شخص سے قبر میں سوالات کیے جاتے ہیں، اس وقت اللہ تعالی قول ثابت کے ذریعے مومن کو ثابت قدم بناتا ہے، اور اس کی قبر کو تا حد نگاہ کھلا کر دیا جاتا ہے۔

جبکہ کافر کی روح کو فرشتے جہنم اور اللہ تعالی کی ناراضی کی خوش خبری دیتے ہیں، پھر اس کو ذلیل، خوف زدہ اور قبیح ترین حالت میں لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں، اس کے لیے آسمان کے دروازے بھی نہیں کھولے جاتے، تو پھر اس کی روح کو دوبارہ اس کے جسم میں اتار دیا جاتا ہے، اور اس شخص سے قبر میں سوالات کیے جاتے ہیں، اور قبر اس پر تنگ ہو جاتی ہے، اس کے پاس آگ کی تپش اور گرم ہوا آتی ہے۔

اس کی تفصیلات سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی لمبی حدیث میں آئی ہیں، ہم نے یہ مکمل روایت سوال نمبر: (8829) کے جواب میں ذکر کی ہے۔

تاہم قبر میں سوالات کے وقت روح کی واپسی خاص نوعیت کی ہوتی ہے، دنیا میں روح کے آنے کی طرح نہیں ہوتی، جیسے کہ ہم پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں؛ کیونکہ یہ واپسی برزخی زندگی میں ہوتی ہے اور سوال و جواب بھی برزخی زندگی کے ہوتے ہیں، اور برزخی زندگی کے معاملات ایسے نہیں ہیں جیسے دنیاوی زندگی کے ہوتے ہیں، اس زندگی کی کیفیت اور تفصیلات صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"محترم بھائیو! ہم پر یہ واجب ہے کہ جو غیبی چیزیں اللہ تعالی نے ہمیں بتلا دی ہیں ہم ان کے بارے میں کہیں: ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ غیبی چیزوں کے بارے میں اشکالات پیش نہ کریں؛ کیونکہ غیبی معاملات ہماری ذہنی سطح سے بہت بالا ہیں، چنانچہ غیبی امور چاہے ذات باری تعالی کے بارے میں ہوں یا کسی مخلوق کے بارے میں ان سب کے متعلق یہ بنیادی اصول اور ضابطہ ہے۔۔۔
لہذا غیبی امور کے بارے میں کیوں اور کیسے کے الفاظ استعمال کر کے سوال نہیں اٹھایا جا سکتا؛ کیونکہ معاملہ ہماری عقل سے بالا تر ہے ۔۔۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جب لوگوں نے روح کے بارے میں پوچھا تو اللہ تعالی نے ان کو جواب دیتے ہوئے کیا فرمایا: قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبَّيْ  یعنی روح میرے رب کا معاملہ ہے کہ تم اس کی حقیقت کا ادراک کر ہی نہیں سکتے، پھر فرمایا:   وَمَا أُوْتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلًا  یعنی: تمہیں علم بہت ہی تھوڑا دیا گیا ہے۔[الإسراء:85] مطلب یہ ہے کہ: تمہیں محض روح کے بارے میں ہی علم نہیں بلکہ تمہیں جو بھی علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی کم ہے، علم کا اکثر حصہ تمہیں نہیں دیا گیا، اور یہ بات بہت ہی تعجب خیز ہے کہ وہ روح جو ہمارے اندر موجود ہے ہم اسے بھی نہیں جانتے کہ وہ کیا ہے؟! ہمیں روح کے بارے میں اتنا ہی علم ہے جتنا قرآن و سنت میں بیان ہوا ہے، اس کے علاوہ ہمیں کسی چیز کا علم نہیں ہے!" ختم شد
"لقاءات الباب المفتوح" اللقاء (169)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب