جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

خاوند نے بیوی کے ساتھ رمضان میں دن کے وقت زبردستی کی بیوی نے ابتدا میں منع کرنے کی کوشش کی لیکن پھر ڈھیر ہو گئی، تو کیا بیوی پر کفارہ ہو گا؟

سوال

سوال: گزشتہ رمضان سے پہلے والے رمضان کے آخری عشری میں جب میں نماز فجر وتلاوت قرآن سے فارغ ہوئی تو میرے خاوند نے مجھے سے جماع کیا تھا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ آخری عشرے کے دوران میں اعتکاف، عبادات کیلیے خوب محنت اور لیلۃ القدر کی تلاش کیلیے جد و جہد کرتی ہوں۔ یہ واضح رہے کہ اس سے پہلے تک وہ مجھ سے دور ہی رہے ہیں حالانکہ انہیں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مجھ میں اللہ تعالی کی طرف سے حلال کردہ تعلق بنانے کی چاہت بڑھ رہی ہے، اس کے باوجود ہمارے درمیان میں کسی قسم کی رومانسی گفتگو، بوس و کنار یا کوئی اور اس طرح کا کام نہیں ہوا پھر بھی وہ میرے قریب ہوئے اور میں نے انہیں اللہ کی سزا کے خوف سے روکا بھی، لیکن میرا خاوند اپنے کام میں مصروف رہا یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے زبردستی کی اور میں بھی اس کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور مکمل طور پر جماع ہو گیا، صاف صاف کہوں تو آخر میں میں بھی اس کے سامنے اسی لیے ڈھیر ہو گئی تھی کہ گناہ ملے گا تو اسی کو ملے مجھے کیا! اب سوال یہ ہے کہ کیا اس گناہ میں میں بھی برابر کی شریک ہوں؟ یا اس کا گناہ صرف میرے خاوند پر ہی ہے؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر مرد اپنی بیوی کے ساتھ [روزے کی حالت میں]زبردستی جماع کرے تو  عورت پر کوئی قضا یا کفارہ نہیں ہے، ہم نے اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (106532) کے جواب میں بیان کر دی ہیں۔

لیکن اگر عورت مکمل طور پر  جماع سے انکاری نہ ہو بلکہ اپنے خاوند کی ناراضگی کے خوف سے  ان کی بات مان لے یا خاوند کے زبردستی کرنے کی وجہ سے بیوی جماع پر راضی ہو جائے ، یا خاوند نے بیوی کو جماع کیلیے اس قدر تیار کر دیا ہو کہ بیوی بھی اب انکار نہ کر پائے تو ان تمام صورتوں میں  بیوی کو مجبور یا اس کی ساتھ زبردستی شمار  نہیں کیا جائے گا، بلکہ وہ بھی خاوند کے ساتھ شریک گناہ ہو گی، عورت پر قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہو گا۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیوی پر حتی الامکان جماع سے دور رہنا لازمی ہے ، بیوی خاوند کو اس کا موقع نہ دے، چاہے خاوند ناراض ہو یا نہ ہو۔

اور اگر دونوں عمداً جماع کر بیٹھیں: تو دونوں پر توبہ کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی واجب ہے اسی طرح وہ اس روزے کی قضا بھی دیں گے، اپنے کئے ہوئے پر انہیں سچی توبہ بھی کرنی پڑے گی۔

اور اگر معاملہ واقعی ایسا ہوں کہ جس میں بیوی پر حقیقی انداز میں جبر کرتے ہوئے جماع کیا جائے مثلاً: مار پیٹ یا باندھنے تک بات پہنچ چکی ہو تو پھر ایسی صورت میں عورت پر کچھ نہیں ہے، سارا گناہ خاوند پر ہی ہو گا۔

لیکن عورت کو خاوند کا  یہ طرز عمل اچھا تو نہیں لگا   لیکن پھر بھی خاوند کی تابعدار بنی رہی تو ایسی صورت میں عورت کو مجبور شمار نہیں کیا جائے گا؛ بلکہ عورت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مکمل طور پر جماع سے انکار کر دے۔

اور عورت کو علم ہوتا ہے کہ کس طرح خاوند کو اپنے آپ سے دور رکھنا ہے، البتہ اگر خاوند جبراً جماع کرے اور عورت اس صورت میں کچھ نہ کر سکتی ہو  [تو پھر عورت کو گناہ نہیں ہو گا، لیکن یہ بات واضح رہے کہ] اللہ تعالی کو سب معلوم ہے کہ کس صورت میں عورت کچھ نہیں کر سکتی تھی" انتہی مختصراً
ماخوذ از:  "فتاوى نور على الدرب"

http://www.binbaz.org.sa/noor/4591

مزید کیلیے آپ  سوال نمبر: (106532) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب