جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ایسے جادو زدہ شخص کی امامت کا حکم جو سورہ فاتحہ بھی نہ پڑھ سکتا ہو

246342

تاریخ اشاعت : 27-10-2016

مشاہدات : 4540

سوال

سوال:کیا جادو زدہ شخص امام بن کر نماز پڑھا سکتا ہے؟ اسے معلوم ہے کہ اس پر جادو کے اثرات ہیں اور وہ سورہ فاتحہ بھی نہیں پڑھ سکتا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمام شرعی احکامات میں جادو زدہ شخص  کے مختلف احوال کا فرق رکھاجائے گا؛ چنانچہ جس شخص کا جادو کی وجہ سے اپنی عقل اور قوتِ ارادہ پر قابو ختم ہو جائے  تو وہ شخص حقیقت میں مکلف ہی نہیں ہے اس پر شرعی احکام لاگو نہیں ہوتے۔

اور اگر صورت حال اتنی ابتر نہ ہو  لیکن جادو کی وجہ سے جادو زدہ شخص غمگین اور پریشان نظر آئے یا بیوی کے ساتھ ہم بستری نہ کر سکے  یا جادو کے دیگر منفی اثرات  اس پر عیاں ہو لیکن عقل و دانش قائم ہو اور قوتِ ارادہ بھی موجود ہو تو ایسا شخص شریعت کا مکلف ہے اور اس پر شرعی احکام لاگو ہوتے ہیں۔

اس بارے میں مزید کیلیے فتوی نمبر: (217591) کا جواب ملاحظہ کریں۔

چنانچہ پہلی قسم کی صورت میں  کہ جادو زدہ شخص کے پاس قوت ارادہ نہ ہو اور عقل کام نہ کرے تو اس کا حکم مجنون والا ہے یعنی وہ مکلف ہی نہیں ہے، لہذا اس کی امامت ہی درست نہیں ہو گی؛ کیونکہ امامت کیلیے عقل کا ہونا شرط ہے، اس لیے مجنون شخص کو امام بنانا صحیح نہیں ہے۔

مزید کیلیے دیکھیں: " الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني " (1 / 205)

فقہائے کرام نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ :
"مجنون آدمی نیت نہیں کر سکتا، اس طرح اس کی اقتدا کرنے والے کی بھی نیت کبھی قائم نہیں ہو گی" انتہی
" الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي " (1 / 326)

البتہ اگر جادو زدہ یہ شخص کبھی ٹھیک ہو جاتا ہے اور کبھی افاقے میں نہیں رہتا تو جادو کے اثر سے افاقے کی حالت میں اس کی امامت درست ہو گی کہ اسے افاقے کی حالت میں ایسے مجنون پر قیاس کیا جائے گا جس کے بارے میں فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ اگر مجنون افاقے کی حالت میں ہو تو اس کے امام بننے میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
" الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي " (1 / 326)

البتہ افاقے کی حالت میں بھی یہ شرط ہے کہ سورہ فاتحہ  اور نماز پڑھانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہو۔

چنانچہ اگر سورہ فاتحہ صحیح طرح نہیں پڑھ سکتا  جیسے کہ سوال میں بھی ذکر ہے کہ  متعلقہ شخص سورہ فاتحہ پڑھنے کی بالکل صلاحیت نہیں رکھتا تو پھر اس شخص کی امامت بھی بالکل درست نہیں ہو گی۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (194317) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوسری قسم جس کی عقل اور دانش پر جادو کے اثرات نہیں ہیں تو اس کے امام بننے پر کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ کہ امامت کی دیگر اس میں شرائط پوری ہوں۔

امامت کے حقدار کون ہیں یہ جاننے کیلیے آپ فتوی نمبر: (20219) کا مطالعہ کریں۔

یہ بات ہم نے اس لیے کہی ہے کہ فقہی قاعدہ ہے کہ: "جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کی امامت بھی صحیح ہے" انتہی، ماخوذ از: " سبل السلام " (1 / 373) ، " عون المعبود وحاشية ابن القيم " (2 / 214)

جبکہ بعض اہل علم اس قاعدے کی تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"جس شخص کی نماز اپنے لیے درست ہے تو اس کی نماز [امامت کی صورت میں]دوسروں  کیلیے بھی صحیح ہے"انتہی
" نيل الأوطار " (2 / 31)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب