ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

حدیث ( لولاک ماخلقت الافلاک ) کا باطل ہونا

23290

تاریخ اشاعت : 04-02-2004

مشاہدات : 35496

سوال

اس حدیث کے بارہ میں آپ کی کیا راۓ‌ ہے ؟
( اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نہ ہوتا تو اللہ تعالی مخلوق کوبھی پیدا نہ فرماتا ) ۔
صحیح بات یہ ہے کہ مجھے اس حديث کے صحیح ہونے میں شبہ ہے توکیا یہ ممکن ہے کہ آّپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


اس معنی میں باطل اورموضوع احادیث روایت کی گئ ہیں ان میں سے کچھ ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :

( لولاک لما خلقت الافلاک )

اگر آپ نہ ہوتے تو میں مخلوق بھی پیدا نہ کرتا ۔

یہ حدیث علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالی نے " الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ص ( 326 ) میں ذکر کرنے کے بعدکہا ہے :

صنعانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے موضوع قرار دیا ہے ۔ ا ھـ

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے سلسلہ ضعیفہ ( 282 ) میں موضوع کہا ہے ۔ اھـ

اورایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے :

امام حاکم رحمہ اللہ تعالی نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ :

( اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کو وحی فرمائ اے عیسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاؤ ، اوراپنی امت کوبھی یہ حکم دے دو کہ جوبھی انہیں پالیں وہ اس پر ایمان لائيں ، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا ۔

اوراگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں جنت اورجہنم بھی پیدا نہ کرتا ، میں نے پانی پر عرش پیدا کیا تووہ ہلنے لگا تو میں نےاس پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، لکھ دیا تووہ حرکت کرنا بندہوگیا )۔

امام حاکم نے اس کی سند کوصحیح قرار دیا ہے لیکن امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے ان کا تعاقب کرتے ہوۓ یہ کہا کہ میرا خیال ہے کہ سعید پریہ موضوع ہے ۔ ا ھـ

یعنی اس حدیث کے راویوں میں سعید بن عروبہ شامل ہے جس سے عمرو بن اوس انصاری نے یہ حدیث بیان کی ہے اور عمرو کویہ حدیث وضع کرنے سے متھم کیا گيا ہے ، امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے " میزان الاعتدال " میں ذکر کرتے ہوۓ کہا ہے کہ :

یہ ایک منکر خبر لایا ہے ، پھر انہوں نے یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔

اور علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے سلسلہ ضعیفہ میں کہا ہے کہ اس کی کوئ اصل نہیں " لا اصل لہ " الضعیفـۃ ( 280 ) ا ھـ

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیا گيا کہ :

بعض لوگ یہ حدیث ( لولاک ماخلق اللہ عرشا ولا کرسیا ولا ارضا ولا سماء ولا شمسا ولاقمرا ولا غیر ذالک ) کہ اگر آپ نہ ہوتے نہ تو اللہ تعالی عرش اور کرسی ، اورنہ ہی ارض وسما ، اورنہ ہی شمس وقمر ، اور نہ ہی کوئ اورچیز ہی پیدا فرماتا ) ۔

کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ نہیں ؟ ۔

تو ان کا جواب تھا :

محمد صلی اللہ علیہ وسلم اولاد آدم کے سردار اوراللہ تعالی کے ہاں مخلوق میں سے افضل اوراکرم ترین ہیں ، تواس لحاظ سے کسی نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی سارا عالم پیدا فرمایا ، اور یا یہ کہ دیا کہ : اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو اللہ تعالی عرش وکرسی اور نہ ہی آسمان وزمین ، اورنہ ہی شمس وقمر پیدا فرماتا ۔

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تو یہ صحیح اور نہ ہی ضعیف حدیث ہے ، اور حدیث کا علم رکھنے والے علماء میں سے کسی نے بھی اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان نہیں کیا بلکہ یہ تو صحابہ کرام سے بھی معروف نہیں ، بلکہ اس کے قا‏ئل کا ہی علم نہیں کہ وہ کون ہے ۔ اھـ ۔ مجموع الفتاوی ( 11 / 86 - 96 ) ۔

لجنۃ دائمہ ( سعودی عرب کی مستقل فتوی کمیٹی ) سے یہ سوال کیا گيا کہ :

کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے آسمان وزمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوپیدا کرنے کے لیے بناۓ ، اور حدیث " لولاک لما خلق اللہ الافلاک " کا معنی کیا ہے اور کیا اس حدیث کی کوئ اصل ہے ؟

توکمیٹی کا جواب تھا :

آسمان وزمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیدا نہیں کیے گۓ بلکہ ان کے بنانے کا مقصد تووہی ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :

اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بناۓ اوراسی طرح (سات ) زمینیں بھی ، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تا کہ تم جان لو کہ اللہ تعالی ہر چيزپرقادر ہے اوراللہ تعالی نے علم کے اعتبار سے ہرچيز کو گھیررکھا ہے ۔

اورحديث مذکورہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرکذب ہے جو کہ موضوع ہے اور اس کی کوئ اصل نہیں ملتی جو کہ صحیح ہو۔ اھـ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 1 / 312 ) ۔

اس حدیث کے بارہ میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے بھی سوال کیا گیا توان کا جواب تھا کہ :

یہ ایسی کلام ہے جو کہ عام لوگوں سے نقل کی جاتی ہے اور وہ سمجھتے بھی نہیں کہ ہم کیا نقل کررہے ہیں ، بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ساری دنیا ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے بنائ گئ اوراگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو دنیا نہ بنائ جاتی اور نہ ہی لوگ پیدا کیے جاتے ، تو یہ باطل ہے جس کی کوئ اصل نہیں ۔

اوریہ کلام فاسد ہے کیونکہ اللہ تعالی نے دنیا تو اس لیے پیدا فرمائ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی پہچان ہوسکے اور اس کی عبادت کی جاۓ ، اللہ تعالی نے تودنیااورمخلوق تواس لیے پیدا فرمائي ہے کہ :

وہ اپنے اسماء و صفات اور قدرت اورعلم سے جانا جاسکے اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کی اطاعت کی جاۓ نہ کہ یہ سب کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اور نہ ہی عیسی اور موسی اور دوسرے انبیاء علیھم السلام کی وجہ سے ۔

بلکہ اللہ تعالی نے مخلوق تو اس لیے بنائ کہ اس وحدہ لاشریک کی عبادت ہو ۔ فتاوی نور علی الدرب ( 46 ) یہ فتوی ( اذاعۃ القرآن )قرآن ریڈیوسعودی عرب پر نشر ہوتا ہے

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب