جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

سود كو حلال قرار دينا

22339

تاریخ اشاعت : 10-04-2005

مشاہدات : 8799

سوال

سود كو حلال قرار دينے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كتاب و سنت اور اجماعى قطعى كے ساتھ سود حرام ہے، لہذا جس نے بھى اسے حلال قرار ديا وہ كافر ہے.

كيونكہ قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ: جس نے بھى ايسى چيز كا انكار كيا جس پر علماء كرام نے واضح اجماع كيا ہو وہ شخص كافر ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

بلاشبہ ظاہر اور متواتر واجبات كے وجوب، اور ظاہر اور متواتر حرام كردہ اشياء كى حرمت پر ايمان ركھنا ايمان كے اصول اور قواعد دين ميں سب سے عظيم اصل ہے، اور اس كا منكر متفقہ طور پر كافر ہے. اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 12 / 497 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جس نے بھى كسى ايسى چيز كى حلت كا اعتقاد ركھا جس كى حرمت پر اجماع ہو چكا ہو اور اس كا حكم مسلمانوں كے مابين ظاہر ہو اور اس كے بارہ ميں وارد شدہ نصوص كے ساتھ شبہ زائل ہو چكا ہو جيسا كہ خنزير كا گوشت اور زنا، اور اس طرح كى دوسرى اشياء جس ميں كوئى اختلاف نہيں اس نے كفر كيا. اھـ

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 12 / 276 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

آج جبكہ دين اسلام پھيل چكا ہے اور مسلمانوں ميں وجوب زكاۃ كا علم عام ہے حتى كہ اسے ہر خاص و عام جانتا ہے، اور اس ميں عالم اور جاہل شريك ہے، تو اس كے انكار ميں كسى تاويل كرنے والے كى تاويل كے ساتھ معذور نہيں جانا جائے گا، اور اسى طرح امور دين جب كہ وہ عام اور پھيل چكے ہوں مثلا نماز پنجگانہ اور رمضان المبارك كے روزے، اور غسل جنابت، اور زنا اور شراب اور محرم عورتوں سے نكاح كى حرمت، جن پر امت كا اجماع ہو چكا ہو تو ان ميں سے كسى ايك كا بھى انكار كرے اس كا بھى يہى حكم ہے.

ليكن اگر كوئى شخص نيا نيا اسلام قبول كرنے والا ہو اور اسے اسلامى حدود كا علم نہ ہو تو اگر ايسا شخص جہالت كى بنا پر ان ميں سے كسى چيز كا انكار كرے تو وہ كافر نہيں ہو گا....

اور جس چيز پر خاص لوگوں كے علم كے ذريعہ معلوم اجماع ہو چكا ہو مثلا بيوى اور اس كى پھوپھى اور اس كى خالہ كو ايك نكاح ميں جمع كرنا، اور قتل عمد كرنے والا قاتل وارث نہيں، اور دادى نانى كو چھٹا حصہ ملے گا، اور اس كے مشابہ دوسرے احكام، جو كوئى بھى ان كا انكار كرے وہ كافر نہيں بلكہ اس كا علم عام لوگوں ميں نہ ہونے كى بنا پر اسے معذور جانا جائے گا. اھـ

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( سود كا حكم: بلاشبہ كتاب و سنت اور مسلمانوں كے اجماع كے مطابق سود حرام ہے.

اور اس كا مرتبتہ اور درجہ: يہ كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى ( اس كى طرف ) دوبارہ پلٹے يہى جہنمى ہيں، اس ميں ہميشہ ہميشہ رہيں گے

اور ايك دوسرے مقام پر فرمايا:

اگر وہ ايسا نہيں كرتے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جانب سے اعلان جنگ ہے

اور اس ليے بھى كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور كھلانےاور اس كے دونوں گواہوں اور اسے لكھنے والے پر لعنت فرمائى ہے.

لھذا يہ سب سے عظيم كبيرہ گناہ ہے.

اور اس كى حرمت پر سب كا اتفاق ہے، اور اسى ليے ان لوگوں ميں سے جو مسلمان معاشرے اور ماحول ميں بسنے والے ہيں جس نے بھى اس كا انكار كيا وہ مرتد ہے، كيونكہ يہ ظاہر اور بالاتفاق حرام كردہ اشياء ميں سے ہے.

ليكن جب ہم يہ كہيں كہ: كيا اس كا معنى يہ ہے كہ علماء كرام اس كى ہر صورت پر متفق ہيں ؟

تو اس كا جواب ہے كہ:

نہيں. بلكہ بعض صورتوں ميں اختلاف واقع ہوا ہے، اور اسى طرح ہے جو ہم زكاۃ ميں كہتے ہيں كہ: يہ بالاجماع واجب ہے، حالانكہ سب صورتوں ميں اجماع نہيں، لہذا كام كرنے والے اونٹ اور گائے ( جو كھيتى باڑى اور پانى لگانے ميں استعمال ہوتے ہيں ) ميں اختلاف كيا ہے، اور زيور ميں بھى اختلاف ہے، اور اس طرح كى دوسرى اشياء ميں، ليكن مجموعى طور پر علماء كرام سود كى حرمت پر متفق ہيں بلكہ يہ كبيرہ گناہوں ميں سے ايك كبيرہ گناہ ہے ) اھـ

ديكھيں: الشرح الممتع على زاد المستقنع ( 8 / 38 ).

تو اس بنا پر يہ كہا جائے گا كہ:

جس نے بھى سود كى حرمت كا انكار كيا وہ كافر ہے، كيونكہ اس كى حرمت ايسے امور ميں سے ہے جس پر نصوص دلالت كرتى ہيں ، اور علماء كرام اس كى حرمت پر واضح اجماع كر چكے ہيں اور مسلمانوں يہ اجماع عام ہے.

ليكن جب كوئى شخص سود كى صورتوں ميں سے كسى ايك صورت كى حرمت كا انكار كرے جس صورت كى حرمت ميں علماء كرام كے مابين اختلاف ہے، يا پھر اس كى صورت ميں ظاہرى اجماع نہيں، تو پھر وہ كافر نہيں ہو گا، بلكہ اس كى حالت كو ديكھا جائے گا ہو سكتا ہے وہ مجتھد ہو اور اپنے اجتھاد پر اسے اجر ملے، اور ہو سكتا ہے وہ معذور ہو، اور بعض اوقات وہ فاسق ہو سكتا ہے جبكہ وہ اپنى خواہش كى پيروى كرتے ہوئے اسے حلال سمجھے.

اللہ اعلم، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب