جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

دستیاب مال کے ذریعے حج کرے یا بچوں کی شادیاں کرے؟

220945

تاریخ اشاعت : 16-12-2014

مشاہدات : 4567

سوال

سوال: ایک آدمی کا تعلق اردن سے ہے، اسکے پاس حج کیلئے بدنی اور مالی دونوں استطاعت ہے، ساتھ ہی وہ اپنی والدہ اور بیوی کیساتھ سفرِ حج میں محرم بھی بنے گا، لیکن اسکی نو عمر اولاد ہے، جن کے بارے میں سفرِ حج کے دوران فتنے کا اندیشہ ہے، تو کیا اسکے لئے یہ اندیشہ آئندہ سال تک کیلئے حج مؤخر کرنے کا عذر بن سکتا ہے؟ کیونکہ وہ اس وقت تک کچھ کی شادی کر دیگا، اور بقیہ بچوں کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کیلئے قابل اعتماد افراد کے ذمہ لگا دے گا۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو شخص حج کی استطاعت رکھے، اور اس میں حج کے واجب ہونے کیلئے مطلوبہ شرائط پوری ہوں تو اس پر فوراً حج کرنا لازمی ہے، اس میں بغیر عذر کے تاخیر جائز نہیں ہے، مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (41702) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

دوم:

بیٹے کو شادی کی ضرورت بھی ہو، اور اسکے پاس شادی کے اخراجات نہ ہوں تو والد پر بیٹے کی شادی لازمی ہے، بلکہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں اس میں واجب نان و نفقہ بھی شامل ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ  " المغنی " (8/217) میں رقم طراز ہیں کہ:
"حنبلی فقہاء کا کہنا ہے کہ: اگر بیٹے کا خرچہ والد کے ذمہ ہے تو  والد پر  اپنے بیٹے کو بوقت ضرورت عفت مہیا کرنا  [بھی]ضروری ہے" انتہی

اور مرداوی رحمہ اللہ  " الإنصاف " (9/404) میں کہتے ہیں:
"آدمی ان تمام افراد کو [اسباب] عفت مہیا کرنے کے ذمہ دار ہے جن کا خرچہ اسکے ذمہ ہے، مثلاً: آباؤ اجداد، بیٹے، پوتے وغیرہ میں سے جن کا خرچہ اسکے ذمہ ہے، یہی [امام احمد کے] مذہب کے مطابق  صحیح ہے "انتہی

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"انسان کو شادی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ بسا اوقات یہ ضرورت انسان کیلئے کھانے پینے کی طرح لازمی ہو جاتی ہے، اسی لئے اہل علم کا کہنا ہے کہ: جس شخص پر جن لوگوں کا نان و نفقہ لازمی ہے، اس پر مالی استطاعت کی صورت میں  انکی شادی بھی ضروری ہے، لہذا والد پر ضروری ہے کہ اپنے مالی طور پر کمزور بیٹے کی شادی  کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی شادی کرے "انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (18/410)

سوم:

حج کو مؤخر کرنے کیلئے قابل قبول عذر میں یہ بھی شامل ہے کہ آدمی نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی ہو، بیٹے کو شادی کی ضرورت بھی ہو، اور اسکے بارے میں فتنہ و حرام میں پڑنے کا اندیشہ بھی ہو، لیکن مال صرف اتنا ہو کہ  یا تو حج کیا جائے یا شادی ، کیونکہ حج آدمی پر اسی وقت واجب ہوتا ہے جب وہ اپنے اور اہل و عیال کے ضروری خرچہ سے زائد مال کا مالک ہو، اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ بچوں کی شادی کرنا بھی ضروری خرچہ میں سے ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔

اور ویسے بھی  فتنوں اور شہوت  سے بھر پور  وقت میں  والد کی طرف سے اپنے بچوں کو عفت و پاکدامنی مہیا کرنا ایسا امر ہے جس میں تاخیر نہیں ہو سکتی، لیکن حج  کو بچوں کی شادی کے بعد تک مؤخر کیا جاسکتا ہے۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ  " المغنی " (3/217) میں کہتے ہیں:
"حج کیلئے جانے سے لیکر واپس آنے تک اتنا اضافی خرچہ ہونا  بھی [قابل اعتبار] شرط ہے کہ  جو اسکے اہل و عیال  کی ضروریات کیلئے کافی ہو؛ کیونکہ اس خرچے کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور اہل و عیال کو خرچے کی ضرورت بھی ہوتی ہے ، اس لئے انکا حق  مقدم ہوگا۔۔۔ اور اگر اس شخص کو شادی کی ضرورت ہو، اور اپنے متعلق حرام   کام میں ملوّث ہونے کا اندیشہ رکھے تو حج سے پہلے شادی کرے؛ کیونکہ شادی کرنا اس کیلئے واجب ہے، اور اسکے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ، اس لئے شادی  اسکے اپنے خرچے  کی طرح لازمی ہوگی۔
اور اگر اپنے بارے میں کسی  فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو حج کو مقدم  کرے، کیونکہ اس کیلئے  شادی کرنا اضافی چیز ہے، اس لئے شادی کو فرض حج سے مقدم نہیں کیا جاسکتا" انتہی

ابن قدامہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں -جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے -کہ:
"حنبلی فقہاء کا کہنا ہے کہ: اگر بیٹے کا خرچہ والد کے ذمہ ہے تو  اس وقت والد پر  اپنے بیٹے کو ضرورت کے وقت [اسباب]عفت مہیا کرنا  [بھی]ضروری ہے "انتہی
" المغنی " (8/217)

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا:
"میں اٹھارہ سال کا نوجوان ہوں اور سکول میں پڑھتا ہوں، میری والدہ کی عمر  تقریباً 58  سال ہے، میرے والد صاحب 15 سال قبل فوت ہوگئے تھے، میری والدہ حج پر جانا چاہتی ہے، لیکن انکا کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، اور اس وقت تک حرام ہے جب تک میں شادی نہیں کر لیتا، میں آپ سے گزارش کرونگا کہ  میری والدہ  میری شادی کو حج پر ترجیح دیتی ہیں، اس بارے میں مجھے بتلائیں"

تو انہوں نے جواب دیا:
"بلاشبہ حج ہر استطاعت رکھنے والے انسان پر فرض ہے، کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:
( وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا )
ترجمہ: اللہ کیلئے ان لوگوں پر حج کرنا فرض ہے، جو بیت اللہ [جانے کی]استطاعت  رکھتے ہیں۔ [آل عمران : 97]
چنانچہ اگر آپ مالی طور پر حج کی استطاعت رکھتے ہوں ، تو آپ پر حج فرض ہے، اور اگر آپکی والدہ مالی طور پر حج کی استطاعت رکھتی ہوں  تو ان پر بھی حج فرض ہے، اور اگر آپ پہلے شادی  کریں؛ کیونکہ آپکو شادی کی ضرورت ہے، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ شہوت اور شادی کی رغبت کے ہوتے ہوئے شادی کرنا بھی فرض ہے؛ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (اے نوجوانو! جو تم میں سے شادی کی استطاعت رکھتا ہے ، تو وہ شادی کر لے، کیونکہ شادی آنکھوں کیلئے جھکاؤ، اور شرمگاہ کیلئے حفاظت کی باعث ہے، اور جو شخص شادی کی [مالی] استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے، بیشک روزے  [شہوت] توڑنے کا باعث ہیں) بہر حال آپ شادی حج سے پہلے کر سکتے ہیں "انتہی
" فتاوى نور على الدرب " از: بن باز (20/42)

سائل نے اپنے سوال میں جو کیفیت ذکر کی ہے کہ اسے اپنی اولاد کے بارے میں فتنے کا خدشہ ہے، اور وہ حج کیلئے استعمال ہونے والی رقم کے ذریعے کچھ  کی شادی کرنا چاہتا ہے، تو ایسی صورت میں بڑی مصیبت کے خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ کی طرف سے آئندہ موقع ملنے تک حج مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب