جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

قرآن پاک، فرشتوں، انبیائے کرام اور صحابہ کو وسیلہ بنانے کا حکم

سوال

کیا درج ذیل دعا میں کوئی ایسی بات ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کے ہاں پسندیدہ نہ ہو؟ کیا اس دعا میں کوئی حرام شے ہے؟ اور وہ کون سی شے ہے؟ نیز کتاب و سنت میں اس کے حرام ہونے کی کیا دلیل ہے؟ دعا کے الفاظ یہ ہیں: " أسألك بالقرآن وحروفه ، أسألك بجبرائيل ورسالته ، بميكائيل وأمانته ، بإسرافيل ونفخته ، بسيدنا نوح عليه السلام وذريته ، بسيدنا إبراهيم وخلته ، بسيدنا موسى وتكليمه ، بسيدنا محمد وشفاعته ، بالصديق وخلافته ، بعمر وفاروقيته ، بعثمان وحيائه ، بعلي وشجاعته " میں تجھ سے قرآن اور حروفِ قرآن کا واسطہ دیکر مانگتا ہوں، میں تجھ سے جبرائیل اور اس کی رسالت کا واسطہ دیکر مانگتا ہے، میکائیل اور اس کی امانت کا، اسرافیل اور اس کے صور پھونکنے کا، سیدنا نوح علیہ السلام اور ان کی اولاد کا، سیدنا ابراہیم اور ان کے خلیل ہونے کا، سیدنا موسی اور ان کے کلیم ہونے کا، سیدنا محمد اور ان کی شفاعت کا، صدیق اور ان کی خلافت کا، عمر اور ان کی فاروقیت کا، عثمان اور ان کی حیا داری کا، علی اور ان کی شجاعت کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں"

جواب کا متن

الحمد للہ.

سائل نے وسیلے کی کئی اقسام ذکر کی ہیں جنہیں چار قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: سب سے پہلے: قرآن کریم کا وسیلہ، دوسری قسم: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ، تیسری قسم : فرشتوں اور انبیائے کرام پر مشتمل نیک لوگوں کا وسیلہ، اور چوتھی قسم ایسی ہے جس کا معنی سمجھ میں نہیں آتا۔

پہلی قسم:

قرآن مجید کا واسطہ دے کر دعا کرنا جائز ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کو اس  کی صفات کا واسطہ دینے  سے تعلق رکھتا ہے، اور اللہ تعالی کی صفات کا واسطہ دینا شرعی طور پر جائز ہے، اس کی دلیل صحیح مسلم کی روایت : (2202) اور سنن ترمذی : (2080) نمبر روایت ہے جس میں عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  اَللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ ، أَحْيِنِيْ مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِيْ ، وَتَوَفَّنِيْ إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِيْ   [ترجمہ: یا اللہ! میں تیرے علم غیب جاننے اور مخلوق پر تیری قدرت کا واسطہ دے کر تجھ سے مانگتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک تیرے علم میں میرے لیے زندگی بہتر ہو، اور مجھے اس وقت اپنے پاس بلا لینا جب وفات میرے لیے بہتر ہو]  اس روایت کو امام احمد نے مسند احمد : (30/265) میں روایت کیا ہے اور اسے موسسہ رسالہ کے محققین نے صحیح قرار دیا ہے، اس کے علاوہ بھی اللہ تعالی کی صفات کو وسیلہ بنانے کے شرعی دلائل بہت زیادہ ہیں۔

اسی طرح  کلام بھی اللہ تعالی کی صفت ہے، اور قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے، چنانچہ  قرآن کریم کو وسیلہ بنانا جائز ہے، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین میں سے امام احمد وغیرہ نے  یہ دلائل دیئے ہیں کہ اللہ تعالی کا کلام  مخلوق نہیں ہے، ان کے دلائل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ  [ترجمہ: میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کی پناہ چاہتا ہوں] سلف صالحین کا کہنا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلام کی پناہ طلب کی ہے اور مخلوق سے پناہ طلب نہیں کی جاتی۔

مزید کیلیے دیکھیں: " قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة " (1/297)

ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ،یعنی  کہ انسان اپنے رب کو اس کی صفت کلام کا واسطہ دے۔۔۔اور قرآن کریم جب اللہ کی صفت ہے کیونکہ یہ حقیقی طور پر اللہ کے  الفاظ ہیں جس کے معنی اس کے ارادہ و منشاء کیمطابق ہیں چنانچہ یہ اللہ کا کلام ہوا۔اور جب قرآن اللہ کی صفتوں میں سے ایک صفت ہوا تو اس کا توسل بھی جائز ہوا۔

دوم:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانا، وسیلے کی یہ قسم بعد کے لوگوں میں بہت زیادہ معروف ہے، عام طور پر لوگ کہتے ہیں: "یا اللہ! میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں" یا کہتے ہیں کہ: " یا اللہ! میں تجھ سے محمد کی جاہ کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں " اور ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں اس قسم کے وسیلے کا جواز موجود ہو؛ بلکہ اس قسم کے وسیلے کے متعلق ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کا موقف یہ ہے کہ: یہ جائز نہیں ہے، انہوں نے اس قسم کے موقف سے روکا ہے؛ کیونکہ ان کا موقف یہ ہے کہ: مخلوق کا واسطہ دے کر نہیں مانگا جا سکتا، اور کسی کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کہے: "میں تیرے انبیائے کرام کے حق کا واسطہ دیکر تجھ سے مانگتا ہوں"

علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ " تبيين الحقائق "  (6/31) میں کہتے ہیں:
"ابو یوسف رحمہ اللہ کہتے ہیں:  میں اس بات کو مکروہ [تحریمی] سمجھتا ہوں جو کہے کہ: "فلاں کے حق اور انبیاء و رسل کے حق کا واسطہ دیکر مانگتا ہوں" انتہی
کیونکہ "اللہ سبحانہ و تعالی پر کسی کا کوئی حق  نہیں ہے" جیسے کہ کاسانی رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " (5/126) میں اس بات کا اظہار کیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اہل علم کے راجح موقف کے مطابق ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ کا وسیلہ دینا حرام ہے؛ اس لیے کسی انسان کیلیے یہ کہنا جائز نہیں کہ: "یا اللہ! میں تیرے نبی کی جاہ کا واسطہ دیکر  تجھ سے مانگتا ہوں، یا فلاں  اور فلاں کی جاہ کا واسطہ دیکر مانگتا ہوں" اس کی وجہ یہ ہے کہ وسیلہ اس وقت تک وسیلہ بن ہی نہیں سکتا جب تک وہ مطلوب و مقصود حاصل کرنے میں پر اثر نہ  ہو، کیونکہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ اور شے ہے کہ جس کا کسی شخص کے مطلوب و مقصود کے حصول پر کوئی اثر نہیں ہے چنانچہ کسی دعا کرنے والے کے مطلوب و مقصود کو حاصل کرنے کیلیے یہ سبب نہیں ہے، اور جب سبب نہیں ہے تو وسیلہ بھی نہیں ہے، اسی طرح  اللہ تعالی کو صرف ایسے وسیلے سے ہی پکارا جا سکتا ہے جو کہ صحیح ہو اور دعا کی قبولیت میں اس کا اثر بھی ہو،  لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاہ  اور عزت  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی مختص ہے، یہ آپ ہی کی منقبت اور فضیلت ہے، ہمیں آپ کی اس فضیلت اور منقبت کا فائدہ نہیں ہوگا، ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا فائدہ ہوگا" انتہی
" فتاوى نور علی الدرب "

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر  کوئی یہ کہے کہ:  "یا اللہ! میں تجھ سے تیرے نبی  کے واسطے سے مانگتا ہوں" اور یہ کہ اس جملے سے میری مراد یہ ہے کہ یا اللہ! میں تجھ سے تیرے نبی پر اپنے ایمان اور ان سے اپنی محبت کا واسطہ دیکر مانگ رہا  ہوں، اور اپنے ایمان  اور محبت کو وسیلہ بنا رہا  ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ آپ نے تو ذکر کیا ہے کہ ایسا معنی مراد لینا جائز ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے؟
تو اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ : جو شخص اپنے اس جملے سے مذکورہ معنی مراد لیتا ہے تو وہ صحیح  ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، لہذا اگر بعض سلف -جیسے کہ بعض صحابہ، تابعین اور امام احمد وغیرہ -سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانے کی عبارات  منقول ہیں تو انہیں اسی معنی پر محمول کیا جانا  اچھا ہے، اور اس معنی  کو مد نظر رکھیں تو اس مسئلے میں کوئی اختلاف ہی نہیں بچتا۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر عوام الناس اس جملے کو مطلق رکھتے ہیں، اور اس جملے سے مذکورہ معنی مراد نہیں لیتے، تو ایسے لوگوں پر ہی رد کرنے والوں نے رد کیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور شفاعت کو وسیلہ بنانا جائز سمجھتے تھے، یہ بلا اختلاف جائز ہے؛ لیکن ہمارے زمانے کے بہت سے لوگ  اس جملے سے مذکورہ معنی مراد نہیں لیتے" انتہی
" قاعدة جليلة " (ص119)

سوم:

مخلوق کو وسیلہ بنانا:

یہ شرعی طور پر ناجائز اور گناہ ہے، عرف اور الفاظ ہر دور اعتبار سے عجیب بھی ہے، اس سے اللہ تعالی کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اور ایسا کام کرنا بھی لازم آتا ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی، بلکہ مخلوق کو وسیلہ بنانا  حقیقت میں دعا مانگنے یا   وسیلہ دینےیا  شفاعت طلب کرنے والے کے مقاصد  کی مخالفت ہے، جو کہ آداب ِ دعا  کے بھی خلاف ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور ایسے شخص کو سفارشی بنانا جس نے سائل  کی شفاعت ہی نہیں کی اور نہ ہی سائل کیلیے اس نے کچھ مانگا ہے، بلکہ اسے سائل کی حاجت کا بھی علم نہ ہو، تو یہ لغوی اعتبار سے شفاعت یا وسیلہ نہیں ہے، بلکہ ایک عقلمند اپنے کلام سے واقف شخص  بھی اسے شفاعت اور وسیلہ نہیں سمجھے گا۔۔" انتہی
"مجموع  الفتاوى " (1/242)

اسی طرح ایک اور جگہ کہتے ہیں:

"اگر کوئی کسی بڑی فرمانروا شخصیت سے کہے:" فلاں شخص آپ کا تابعدار ہے میں اس کی تابعداری کا واسطہ دیتا ہوں اور آپ اس کی تابعداری کی وجہ سے اس شخص کے ساتھ محبت کرتے ہیں  لہذا میں  اس  محبت کا واسطہ  دیتا ہوں، فلاں آپ کا بہت بڑا تابعدار ہے جس کی وجہ سے اس کا آپ کے ہاں بہت بلند مقام ہے میں اس مقام کا آپ کو واسطہ دیتا ہوں " تو یہ ایک عجیب سی بات ہو گی جس کا مانگنے والے سے کوئی تعلق ہی نہیں جڑتا،  بالکل اسی طرح  اللہ تعالی کا ان مقرب افراد کے ساتھ  احسان اور ان مقرب افراد کی بندگی  اور اطاعت کے باعث اللہ تعالی کی ان سے محبت  کا معاملہ ہے، ان کی  اللہ سے اس محبت، بندگی اور اطاعت میں  وسیلہ دینے والے کی  قبولیتِ دعا کا موجب بننے والی کوئی شے نہیں ہے۔

قبولیتِ دعا کا موجب بننے والی بات یہ ہے کہ: دعا کرنے والا خود کچھ اسباب پیدا کرے، خود  ان کے نقش قدم پر چلے، یا وہ مقرب لوگ کوئی سبب پیدا کریں مثلاً: وہ اس کیلیے دعا کریں یا سفارش کریں، چنانچہ اگر نہ دعا کرنے والا قبولیت کے اسباب پیدا کر رہا ہے اور نہ ہی وہ مقرب افراد کوئی اسباب پیدا کر رہے ہیں تو قبولیتِ دعا کا کوئی بھی سبب نہیں ہے!"

ایک جگہ اور کہتے ہیں:
"کوئی کہے کہ: "یا اللہ! میں تجھ سے فلاں اور فلاں فرشتے، نبی، صالحین وغیرہ کے تجھ پر حق کے واسطے سے مانگتا ہوں، یا فلاں کی عزت و جاہ کے واسطے سے مانگتا ہوں، یا فلاں شخص کا تیرے ہاں بہت احترام ہے اس احترام کے واسطے سے مانگتا ہوں" اس کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کا اللہ تعالی کے ہاں بہت مقام و مرتبہ ہے، تو یہ بات ٹھیک ہے؛ کیونکہ ان لوگوں کی اللہ تعالی کے ہاں شان ، مقام، اور مرتبہ  ہے جس کا تقاضا ہے کہ اگر وہ شفاعت کریں تو اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی قدر و قیمت میں اضافہ فرمائے اور ان کی شفاعت قبول فرمائے۔۔۔، لیکن جب وہ کسی کیلیے دعا ہی نہ کریں اور نہ ہی شفاعت کریں تو پھر ان کا وسیلہ دینے والا غیر متعلقہ چیز کا وسیلہ دے رہا ہے جو کہ اس کے فائدے کا سامان نہیں کر سکتی"

ایک اور جگہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کسی مقرب کی تکریم فرماتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس مقرب کا وسیلہ دینے والے کی دعا بھی قبول فرمائے، لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ : مقرب  کی ذات وسیلہ نہیں ہے بلکہ اس کی دعا اور اللہ تعالی کے سامنے سفارش ہے تو پھر  ٹھیک ہے، اگر وہ مقرب اس کیلیے شفاعت کرے اور دعا مانگے تو یہ درست ہے۔
لیکن اگر اس مقرب شخصیت نے دعا ہی نہیں کی اور نہ ہی سفارش کی  ہے تو پھر وسیلہ بننے کا  کوئی امکان نہیں ۔"

علامہ ، امام، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر تشفی بخش تفصیلی گفتگو کی ہے جو کہ ان کی کتاب: " قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة " میں موجود ہے۔

چہارم:

سائل نے اپنے سوال میں  صور پھونکنے، نوح علیہ السلام کی اولاد، صدیق کی خلافت اور شجاعتِ علی  وغیرہ کا ذکر کیا ہے جو محض سجع کلامی ہے، یہ الفاظ کہتے ہوئے معنی کو نہیں دیکھا گیا؛ کیونکہ اس کا کوئی معنی  بنتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی مکمل توجہ اور دھیان سے دعا کرنے والے کی زبان سے ایسے الفاظ صادر ہو سکتے ہیں۔

کیونکہ نوح علیہ السلام کی اولاد قبولیتِ دعا کا سبب کیسے بن سکتی ہے؟ حالانکہ ان میں مسلمان، کافر، نیک اور بد سب موجود ہیں؟! صدیق کی خلافت، علی کی شجاعت، عمر کی فاروقیت یا عثمان کی حیا داری، بلکہ ابراہیم علیہ السلام کا خلیل اللہ ہونا دعا کی قبولیت کا باعث کیسے ہو سکتا ہے؟!

بلکہ ابراہیم علیہ السلام کے خلیل ہونے سے اس دعا گزار کا کیا تعلق؟! اس بلند مقام و مرتبے سے اس کا کیا لینا دینا؟!

حقیقت میں یہ سنت کی مخالفت کا نتیجہ ہے اور خود ساختہ دعاؤں کو اپنانے کا خمیازہ ہے، اس میں سجع کلامی کے ذریعے  تکلف کیا گیا ہے،اور اس مقام پر یہ وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ  دعا میں پُر تکلف سجع کی ممانعت کیوں ہے،، ؟ ۔

ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سجع کلامی میں تکلف اور مشقت ہوتی ہے، جو کہ اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑانے اور اخلاص کے منافی ہے، حدیث میں ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی کسی غافل اور فضول کام میں ملوّث دل کی دعا قبول نہیں فرماتا) اور اپنی دعا میں سجع کلامی کی کوشش کرنے والے کا ہدف مسجع کلام  ہوتا ہے ، اور جو شخص دعا کرتے ہوئے اپنی فکر و سوچ کو مشغول کر دے تو اس کا دل غافل اور فضول چیزوں میں مشغول ہو جاتا ہے" انتہی
" شرح صحیح البخاری " (10/97)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب