اتوار 19 شوال 1445 - 28 اپریل 2024
اردو

دعوت قبول کرنے کا حکم اور اس کی شرائط

سوال

مجھے کبھی کسی چھوٹی تو کبھی بڑی پارٹی کی دعوت ملتی ہے ۔۔۔ لیکن اگر ان پارٹیوں میں اکثر غیبت، طنز، کپڑوں اور لباس پر فخر، میرے جیسی سادہ لباس پہننے والی خاتون پر طعنہ زنی ، اور بسا اوقات چغلیاں بھی ہوتی ہیں۔ پھر میں نے گھر میں کام بھی کرنے ہوتے ہیں، میں گھر میں ملازمہ رکھنے کے حق میں نہیں ہوں، جبکہ ان پارٹیوں میں آنیوالی تمام خواتین نے گھروں میں خادمائیں رکھی ہوئی ہیں اس لیے ان کے پاس پارٹیاں بھگتانے کے لیے وقت بھی ہوتا ہے۔
میرے گھر اور خاوند کو میری ضرورت ہوتی ہے، میں اپنے گھر میں ایک منٹ بھی گزاروں تو اس کا ان شاء اللہ میرے گھر پر مثبت اثر پڑتا ہے، میرا گھرانہ میرا سب سے پہلا ہدف ہے، پھر اضافی مطالعہ، تلاوت قرآن اور دیگر مفید سرگرمیوں کے لیے مجھے وقت بھی چاہیے ہوتا ہے۔ میں ایسی مجلس میں شرکت نہیں کرنا چاہتی جس کے فوائد نقصانات کے نیچے دبے ہوئے ہوں، اور اگر ان مجلسوں کے فوائد بھی ہیں تو مجھے اس کے لیے مناسب لائحہ عمل بتلائیں، اور اگر مجھے ان پارٹیوں میں شرکت نہ کرنے کا حق حاصل ہو تو میں کون سا مناسب سا عذر پیش کروں ؟ اور پارٹی کی دعوت مجھے کسی ایسی خاتون سے ملے جس کی مجھ سے بنتی نہیں ہے، وہ مجھے کسی تنگی میں دیکھے تو خوش ہوتی ہے، اور میرے خلاف زبان درازی بھی کرتی ہے، تو کیا میرے لیے اس کی طرف سے دی گئی دعوت قبول کرنا لازم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحیح بخاری: (1164) اور مسلم: (4022) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک لینے والے کے الحمدللہ کہنے پر اسے یرحمک اللہ کہہ کر دعا دینا۔)

مسلمان کو جو دعوت قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کی اہل علم نے دو قسمیں بیان کی ہیں:

پہلی قسم: شادی کے ولیمے کی دعوت، تو جمہور اہل علم اس دعوت کو قبول کرنے کو واجب کہتے ہیں، ہاں اگر کوئی شرعی عذر ہو تو گنجائش ہے، جیسے کہ آئندہ ان میں سے کچھ عذروں کا ان شاء اللہ ذکر کیا جائے گاولیمے کی دعوت قبول کرنا واجب ہے اس کی دلیل صحیح بخاری: (4779) اور مسلم: (2585) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بد ترین کھانا ولیمے کا کھانا ہے، اسے کھانے کے لیے آنے والے کو تو روکا جاتا ہے، اور جو نہ آنا چاہے اسے بلایا جاتا ہے، اور اگر کوئی ولیمے کی دعوت قبول نہ کرے تو اس نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کی۔)

دوسری قسم: ولیمے کے علاوہ کوئی بھی چھوٹی بڑی دعوت، تو ان کے بارے میں جمہور اہل علم یہ کہتے ہیں کہ ان میں حاضر ہونا اور ان کی دعوت قبول کرنا مستحب عمل ہے، ان کے مقابلے میں صرف کچھ شافعی اور ظاہری اہل علم ہیں جنہوں نے ایسی دعوت قبول کرنا بھی واجب قرار دیا ہے، تاہم اگر یہ کہا جاتا کہ: ایسی دعوت قبول کرنا تاکیدی طور پر مستحب ہے تو یہ بات زیادہ اقرب الی الصواب تھی۔ واللہ اعلم

اہل علم نے قبولِ دعوت کے وجوب کی چند شرائط بھی ذکر کی ہیں، لہذا اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو دعوت قبول کرنا نہ واجب ہے اور نہ ہی مستحب ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایسی مجلس اور دعوت میں حاضر ہونا حرام ہو، ان تمام شرائط کو علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ نے مختصراً بیان کیا ہے ، آپ کہتے ہیں:
1-دعوت کی جگہ پر کوئی برائی نہ ہو، اور اگر وہاں کوئی برائی ہو اور اس برائی کو وہ شخص ختم بھی کر سکتا ہو تو ایسی صورت میں دو وجوہات کی بنا پر حاضر ہونا واجب ہو گا، ایک تو دعوت قبول کرنے کے لیے اور دوسرا برائی ختم کرنے کے لیے۔ لیکن اگر برائی کو مٹانا اس کے لیے ممکن نہ ہو تو اس پر حاضر ہونا حرام ہے۔

2-دعوت دینے والا ایسا شخص ہو جس سے لا تعلقی مستحب یا واجب نہ ہو، مثلاً: اعلانیہ گناہ کرنے والا ہو اور اس سے لا تعلقی کرنے پر ممکن ہے کہ گناہ سے توبہ تائب ہو جائے۔

3-دعوت دینے والا مسلمان ہو، اگر دعوت دینے والا مسلمان نہیں ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا واجب نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا ہے کہ: (مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں ۔۔۔) انہی میں سے ایک دعوت قبول کرنا ہے۔

4- دعوت کا کھانا حلال ہو کہ جسے کھانا جائز ہو۔

5- دعوت قبول کرنے کی وجہ سے اس سے بھی بڑا واجب کام فوت نہ ہوتا ہو، اگر ایسا ہو تو دعوت قبول کرنا حرام ہو گا۔

6-دعوت قبول کرنے سے دعوت قبول کرنے والے کا کوئی نقصان نہ ہو، مثلاً: اس نے کہیں سفر پر جانا ہے، یا اس کے گھر والے اکیلے رہ جائیں گے اور گھر والوں کو اس کی بہت ضرورت ہے، یا اسی طرح کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔
مختصراً ماخوذ از ، القول المفید: ( 3 / 111)

کچھ اہل علم نے ایک اور شرط بھی شامل کی ہے کہ:
7-داعی کسی خاص شخص کو دعوت پر مدعو کرے تو اس پر حاضر ہونا واجب ہے۔ لیکن اگر مجلس کے حاضرین کو عمومی دعوت دے تو پھر اکثر اہل علم کے ہاں ہر ایک شخص پر دعوت میں حاضر ہونا لازم نہیں ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی دعوت میں حاضر ہونا آپ پر لازم نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ حرام ہو؛ چنانچہ اگر آپ وہاں پر موجود برائی کو روک نہیں سکتیں، یا آپ کے دعوت میں جانے سے خاوند کے حقوق کی تلفی ہوتی ہے، یا آپ کے ذمہ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت آپ نہیں کر پاتیں تو دعوت میں حاضر ہونا آپ پر لازم نہیں ہے۔ پھر یہاں یہ بات بھی ہے کہ آپ خود بھی ان کے شر اور طنز سے محفوظ نہیں رہتیں تو قبولِ دعوت کا وجوب ختم کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا، لیکن یہاں تو معاملہ اس سے بڑھ چکا ہے اس لیے آپ پر دعوت میں حاضر ہونا لازم نہیں رہتا۔

یہاں ایک اور چیز بھی خاتون کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی دعوت پر جانے کے لیے اپنے خاوند سے اجازت ضرور لے، اور آپ دعوت میں آنے والی تمام خواتین کو مشورہ بھی دیں کہ جب اکٹھے ہوں تو اپنی مجلس کو دینی یا دنیاوی طور پر مفید بنائیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ایسی مجالس کے نقصان سے خبردار کیا ہے جس میں اللہ تعالی کا ذکر نہ کیا جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کریں، نہ ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجیں تو یہ مجلس ان کے لیے باعث حسرت و ندامت ہو گی، اللہ تعالی انہیں چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3302)نے روایت کر کے حسن صحیح قرار دیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی: (3 / 140) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح سنن ابو داود: (4214) وغیرہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو لوگ کسی مجلس سے اٹھیں اور انہوں نے اس میں اللہ کا ذکر نہ کیا ہو ، تو وہ ایسے ہیں گویا کسی مردار گدھے پر سے اٹھے ہوں اور ( آخرت میں ) یہ مجلس ان کے لیے حسرت کا باعث ہو گی) اس حدیث کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین: (321) میں صحیح قرار دیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے بھی انہی کے حکم کی تائید کی ہے۔

تو آپ یہ نصیحت ان بہنوں تک بالمشافہ پہنچائیں یا لکھ کر بھیج دیں، اور اگر ایک قدم آگے بڑھ کر آپ ان سب کو اپنے گھر میں دعوت دیں، اور اسی مجلس کو وعظ و نصیحت کے لیے بھی غنیمت سمجھیں، تاہم ساتھ کچھ ایسی سرگرمیاں بھی شامل کر لیں جن میں وہ دلچسپی رکھتی ہیں ، تو امید ہے کہ آپ کے اس اقدام سے ان کے لیے ایسی دعوتوں کو بار آور اور مفید بنانے کے لیے بہترین عملی نمونہ سامنے آ جائے اور اس کا سبب اللہ تعالی آپ کو بنا دے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد