جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

خاوند کی اولاد ان کے والدکی بیوی کےلیے محرم ہے

20755

تاریخ اشاعت : 13-07-2004

مشاہدات : 9532

سوال

میری سالی نے ایک بھائي سے شادی کی جس کے پہلی بیوی سے بھی دوبچے تھے ، وہ ان بچوں کی تعلیم وتربیت اورپرورش اپنی اولاد کی طرح کرتی رہی ، مجھے یہ علم نہیں کہ انہيں یہ پتہ ہو یہ اس کی حقیقی ماں نہیں ، لیکن مجھے یہ توعلم ہے کہ انہوں نے میری سالی کا دودھ نہیں پیا ۔
میری بیوی کے خاندان والے حتی کہ میری بیوی بھی ان کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرتے ہیں گویا کہ سالی کی اولاد ہو ، اب وہ بچہ اوربچی بلوغت کے قریب ہیں میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میری بیوی کواس بچے سے پردہ کرنا واجب ہے ، اورکیا اس بچی پر واجب ہے کہ وہ مجھ سے پردہ کرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

آپ کی بیوی کا آپ کی سالی کے خاوند کے بچوں سے کوئي تعلق اور واسطہ نہیں کیونکہ نہ تو وہ آپ کی سالی کی نسبی اور نہ ہی رضاعی ( یعنی دودھ کی ) اولاد ہے ، تو اس بنا پر آّپ کی بیوی پر اس بچے سے پردہ کرنا واجب ہے کیونکہ وہ اس کے لیے اجنبی کی حیثيت رکھتا ہے ۔

اوراسی طرح آپ بھی اس بچی کے لیے اجنبی ہیں آپ کے لیے اس کے ساتھ خلوت کرنا حلال نہيں اورنہ ہی اس کے ساتھ سفر کرسکتے ہیں ، اوراس بچی کی لیے یہ حلال نہیں کہ وہ آپ سے پردہ نہ کرے بلکہ اس پر آپ سے پردہ کرنا واجب ہے ۔

اوررہا مسئلہ ان کے والد کی بیوی ( یعنی جوآپ کی سالی ہے ) کا تواس پر کوئي واجب نہیں کہ وہ ان سے پردہ کرے اس لیے کہ وہ اس کے محرم ہیں ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :

فرمان باری تعالی ہے :

اورتم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیے ہیں ، لیکن جو کچھ ہوچکا سوہوچکا ۔

تواس آیت سے یہ پتہ چلا کہ انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے والد یا اپنے دادا کی منکوحہ سے شادی کرلے ، چاہے وہ آباء واجداد والد کی جانب سے ہوں یا پھر والدہ کی جانب سے ہوں ، اورچاہے اس نے عورت سے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔

جب مرد اپنی بیوی سے عقد صحیح کرلیتا ہے تووہ عورت صرف اس عقد کی وجہ سے ہی اس کی اولاد اور اسی طرح اولاد کی اولاد پر بھی حرام ہوجاتی ہے چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں ( یعنی بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں ، دھوتے دھوتیاں ) اوراس سے بھی نيچے کی نسل ۔ ا ھـ

یہ شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کی کلام سے ماخوذ ہے دیکھیں : کتاب : الفتاوی الجامعۃ ( 2 / 591 ) ۔

آپ اس کے لیے مزید تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 20750 ) اور سوال نمبر ( 5538 ) کے جوابات کا بھی مطالعہ کریں ۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب