جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مچھلى كى آنكھ كھانا

2005

تاریخ اشاعت : 10-11-2008

مشاہدات : 6114

سوال

ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ كيا ہم مسلمانوں كے ليے مچھلى كى آنكھ كھانا جائز ہے ؟
ميں ايك بار ہوٹل ميں اپنے دوست كے ساتھ بيٹھى بڑے شوق سے مچھلى كا سر كھا رہا تھى، اور جب ميں نے اس كى آنكھ كھائى تو ميرا دوست مجھے كہنے لگا اسلام ميں مچھلى كى آنكھ حرام ہے، كيا اس كا يہ قول صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب اللہ سبحانہ و تعالى نے درج ذيل فرمان كے تحت ہمارے ليے سمند كا شكار حلال قرار ديا:

تمہارے ليے سمند كا شكار كرنا اور اسے كھانا حلال كيا گيا ہے، تمہارے فائدہ كے ليے المآئدۃ ( 96 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا كہ:

" سمندر كا مرا ہوا حلال ہے "

اور ہميں يہ بتايا كہ مرى ہوئى مچھلى حلال ہے، اور مچھلى ميں سے كچھ بھى استثنى نہيں كيا، اس سے ہميں يہ علم ہوا كہ مچھلى كے سارے اجزاء جن ميں مچھلى كى جلد اور اس كى دم اور آنكھ وغيرہ شامل ہيں حلال ہيں.

تعجب تو اس پر ہوتا ہے كہ كوئى شخص اللہ تعالى كى جانب سے حلال كردہ كو حرام كرنے كى جرات كس طرح كرتا ہے، يقينا يہ معاملہ بہت خطرناك ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى نے جو پاكيزہ اشياء تمہارے ليے حلال كى ہيں انہيں حرام مت كرو، اور حد سے تجاوز مت كرو، يقينا اللہ تعالى حد سے تجاوز كرنے والوں سے محبت نہيں كرتا المآئدۃ ( 87 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

آپ فرما ديجئے كہ اللہ تعالى كے پيدا كيے ہوئے اسباب زينت كو جو اللہ نے اپنے بندوں كے واسطے بنائے ہيں، اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے آپ كہہ ديجئے كہ يہ اشياء اس طور پر كہ قيامت كے روز خالص اہل ايمان كے ليے ہونگى، اور دنياوى زندگى ميں مومنوں كے ليے بھى ہيں، ہم اسى طرح تمام آيات كو سمجھ داروں كے ليے صاف صاف بيان كرتے ہيں الاعراف ( 32 ).

اور ايك مقام پر اللہ عزوجل كا فرمان اس طرح ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ يہ تو بتاؤ كہ اللہ تعالى نے تمہارے ليے جو كچھ رزق بھيجا تھا پھر تم نے اس كا كچھ حصہ حرام اور كچھ حلال قرار دے ليا، آپ پوچھئے كہ كيا تمہيں اللہ تعالى نے حكم ديا تھا، يا كہ تم اللہ تعالى پر افترا ہى كرتے ہو يونس ( 59 ).

اور اللہ تعالى نے اپنے بندوں كو بغير علم كے حرام كرنے سے بچنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:

اور تم كسى چيز كو اپنى زبان سے جھوٹ موٹ نہ كہہ ديا كرو كہ يہ حلال ہے اور يہ حرام ہے، تا كہ تم اللہ تعالى پر جھوٹ بہتان باندھ لو، سمجھ لو كہ اللہ تعالى پر بہتان بازى كرنے والے كاميابى سے محروم رہتے ہيں النحل ( 116 ).

اس ليے جس شخص نے مچھلى كى آنكھ حرام كہہ كر اللہ تعالى پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے اسے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور دين كے معاملہ ميں ايسى ويسى باتيں كرنے كى جرات مت كرے، اور بغير علم كے كوئى بات نہ كرے، اور اگر كسى چيز كے متعلق اس كا ذہن اور دل نہيں مانتا اور وہ نہيں كھانا چاہتا تو اس كے ليے اسے حرام قرار ديا جائز نہيں.

جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لہسن كى بو ناپسند كى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص بھى اس خبيث اور گندے درخت سے كھائے تو وہ ہمارى مسجد كے قريب مت آئے، تو لوگ كہنے لگے حرام كر ديا گيا حرام كر ديا گيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب يہ بات پہنچى تو آپ نے فرمايا:

" لوگو مجھے كسى چيز ايسى چيز كو حرام كرنے كا حق حاصل نہيں جسے اللہ تعالى نے حلال كيا ہے، ليكن ميں ميں اس درخت كى بو ناپسند كرتا ہوں "

اسے امام احمد نے روايت كيا ہے، اور مسلم شريف حديث نمبر ( 877 ) ميں ہے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ واضح كر ديا اور بيان كيا كہ ان كا اسے ناپسند كرنا اور لوگوں كو يہ كھا كر مسجد ميں آنے سے منع كرنے كا معنى يہ نہيں كہ يہ حرام ہے.

اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ضب ( گوہ ) كھانا ناپسند كى تو اسے دوسروں كے ليے حرام قرار نہيں ديا، جيسا كہ درج ذيل قصہ ميں موجود ہے:

خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بھنى ہوئى ضب ( گوہ ) لائى گئى تو آپ نے اسے اپنے قريب كر كے كھانے كے ليے ہاتھ بڑھايا تو وہاں موجود كسى نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ ضب ( گوہ ) كا گوشت ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ كھينچ ليا، تو خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ضب ( گوہ حرام ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نہيں، ليكن يہ ميرى قوم كے علاقے ميں نہيں پائى جاتى، تو ميں اسے پسند نہيں كرتا، تو خالد بن وليد رضى اللہ تعالى عنہ نے اس گوشت كو كھايا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم انہيں كھاتا ہوا ديكھ رہے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4981 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 4242 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3200 ).

سوال كرنے والى جب آپ كو جواب كا علم ہو گيا ہے تو ہم يہاں ايك معاملہ پر آپ كو متنبہ كرنا چاہتے ہيں، ميرى نظر آپ كے سوال پر پڑى جس ميں آپ يہ كہہ رہى ہيں كہ آپ اپنے دوست كے ساتھ ہوٹل ميں سمندرى كھانے كھانا گئى تھيں، گزارش ہے كہ يہ شخص نہ تو آپ كا خاوند ہے اور نہ ہى آپ كا محرم تو آپ كو اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے، اللہ سے ڈريں، اللہ كا ڈر اختيار كرتے ہوئے اپنے آپ سے يہ دريافت كريں كہ دونوں ميں سے كس كے متعلق سوال كرنا زيادہ اولى اور اعظم ہے ؟

آيا مچھلى كى آنكھ كھانے كے متعلق يا كہ كسى غير محرم مرد كے ساتھ ہوٹل ميں بيٹھ كر گپيں لگانے كے بارہ ميں دريافت كرنا ؟

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو اپنى ناراضگى كے اعمال اور اس كے اسباب سے محفوظ ركھے، اور ہميں اپنے تقوى و پرہيزگارى اور اپنا ڈر نصيب فرمائے.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد