جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كھانا نہ ہونے يا پھر كم كھانے كے باعث روزہ ركھ لينے كا حكم

149200

تاریخ اشاعت : 26-09-2010

مشاہدات : 4390

سوال

ميں كھانا بہت كم كھاتا ہوں، اور اكثر طور پر تو مجھے ناشتہ تيار كرنے كے ليے كچھ نہيں ملتا، اور غالبا ميں دوپہر كا كھانا بھى مغرب كے بعد تك مؤخر كر ديتا ہوں، اس ليے ميں نے سوچا كہ سوموار اور جمعرات كے دن روزہ ہى ركھ ليا كروں، اور اسى طرح ہر ماہ ايام بيض تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كا بھى روزہ ركھ ليا كروں، تا كہ كوئى ايسا عمل كرسكوں جو اللہ كے قرب كا باعث بن جائے، اور مجھے جنت ميں داخلہ ملے، گناہ و معاصى سے بچ سكوں.
تو كيا اس طرح كى سوچ ركھتے ہوئے كہ ميں كھانا بھى كم كھاتا ہوں لہذا نفلى روزہ ہى ركھ لينا صحيح ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھنا مستحب ہے، اسى طرح ہر ماہ كے ايام بيض تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كا روزہ ركھنا بھى مستحب ہے اور اس سلسلہ ميں بہت فضيلت وارد ہوئى ہے، ذيل ميں فضائل پر چند ايك احاديث پيش كرتے ہيں:

1 ـ ابو قتادہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سوموار كے دن روزہ ركھنے كے بارہ ميں دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:

" ميں اسى دن پيدا ہو، اور اسى دن مجھ پر وحى نازل ہوئى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1162 ).

2 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھا كرتے تھے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 745 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 2361 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1739 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الرترغيب حديث نمبر ( 1044 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

3 ـ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سوموار اور جمعرات كے دن اعمال پيش كيے جاتے ہيں چنانچہ ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ جب ميرے اعمال پيش كيے جائيں تو ميں روزہ كى حالت ميں ہوں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 747 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1041 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

4 ـ جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر مہينہ كے تين روزے ركھنا صيام الدھر ہے اور ايام بيض تيرہ اور چودہ اور پندرہ تاريخ ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2420 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الرترغيب ( 1040 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

5 ـ ابو ذر رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:

" اگر تم مہينہ ميں كوئى روزہ ركھنا چاہتے ہو تو تيرہ اور چودہ اور پندرہ تاريخ كا روزہ ركھو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 761 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 2424 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1038 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

روزہ ركھنا عبادات ميں سےايك عظيم عبادت ہے، اور سب سے افضل قربات ميں شامل ہوتا ہے، اور انسان كى اصلاح ميں روزے كا عيظم الشان اثر ہے، اور روزہ انسان كو اللہ كے قريب كر ديتا ہے، اور اس كے دل كو حقد و كينہ اور حسد سے پاك كر ديتا ہے.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كيا ميں تمہيں سينہ كے دھوكہ اور وسوسہ كو ختم كر دينے والى چيز كے متعلق نہ بتاؤں ؟، ہر ماہ كے تين روزے ركھنا "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2386 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح النسائى حديث نمبر ( 2249 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام سيوطى رحمہ اللہ نسائى كى شرح ميں لكھتے ہيں:

" وحر الصدر " النھايۃ ميں ہے: سينہ كا دھوكہ اور اس كے وسوسے، اور ايك قول بغض و كينہ بھى ہے، اور ايك قول يہ ہے كہ: اس سے مراد عداوت و دشمنى ہے، اور ايك قول ہے كہ شديد غصہ مراد ہے" انتہى

اور سندھى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس سے سينہ كا غيض و غضب اور كينہ جاتا رہے " اس سے مراد ميں كئى اقوال ہيں: سينہ ميں موجود غش اور اس كے وسوساس ہيں، اور ايك قول ہے كہ: اس سے مراد كينہ و حقد ہے اور ايك قول ہے كہ دل ميں جو سختى اور تنگى ہوتى ہے " انتہى

اس ميں كوئى نقصان اور ضرر نہيں كہ روزے ركھنے كا باعث كھانے كى ضرورت محسوس نہ ہونا ہو، يا پھر كھانا موجود ہى نہ ہو تو وہ روزے ركھ لے اس سے بھى كوئى نقصان نہيں بلكہ اجروثواب ہوگا.

امام مسلم رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

" ايك دن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا اے عائشہ كيا تمہارے پاس كچھ ہے ؟

تو ميں نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے پاس تو كچھ نہيں ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تو پھر ميں روزے سے ہوں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1154 ).

نسائى شريف ميں ان الفاظ سے روايت ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لائے اور فرمايا:

كيا تمہارے پاس كچھ ہے ؟

تو ميں نے عرض كيا كچھ نہيں

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر ميں روزے سے ہوں "

سنن نسائى حديث نمبر ( 2330 ).

اللہ كى اطاعت اور قرب حاصل كرنے كے ليے تو يہ ايك سنہرى موقع ہے، اس ليے اگر كسى شخص كو كھانے كى شديد ضرورت نہ ہو تو اسے روزہ ركھ كر اجروثواب حاصل كرنے كا يہ موقع ضائع نہيں كرنا چاہيے، اور اسى طرح اگر كسى شخص كے پاس كھانے كو كچھ نہيں تو وہ بھى روزہ ركھ كر اجروثواب حاصل كر سكتا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب