ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

نفاس والى عورت شرعى شروط كے ساتھ جب چاہے گھر سے نكل سكتى ہے

سوال

ميں عمان ميں رہتى ہوں يہاں عورتوں كى عادت ہے كہ وہ نفاس كى حالت ميں چاليس يوم تك اپنے گھروں ميں ہى رہتى ہيں، ميں نے كئى ايك لوگوں سے اس عادت كے متعلق دريافت كيا ليكن اكثر لوگ يہ نہيں جانتے كہ آيا يہ سنت ہے يا نہيں ؟
اگر يہ سنت ہے تو ميں بھى اس عادت كو اپنانا چاہتى ہوں ( اس وقت ميں حمل كے چوتھے مہينہ ميں ہوں ) ليكن كسى نے مجھے يہ بتايا ہے كہ يہ عادت بدعت ہے، اس ليے اس سے اجتناب كرنا بہتر ہے.
آپ سے گزارش ہے كہ اس موضوع ك وضاحت كريں، كيونكہ ميں تقريبا چھ برس سے اس موضوع كو تلاش كر رہى ہوں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

نفاس كى زيادہ سے زيادہ مدت چاليس يوم ہے، ان ايام ميں عورت خون آنے كى صورت ميں نماز اور روزہ ترك كرے گى، اور جب خون آنا بند ہو جائے تو غسل كر كے نماز روزہ كى ادائيگى كى جائيگى، اور اگر خون چاليس يوم سے پہلے ختم ہو جائے تو غسل كر كے نماز روزہ كى ادائيگى كرنا ضرورى ہے.

ليكن اگر خون چاليس يوم سے زيادہ آتا ہے اور خون نہيں ركتا تو يہ استحاضہ كا خون ہوگا، كيونكہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عورتيں نفاس كے وقت چاليس يوم تك بيٹھتى تھيں "

اسے ترمذى نے روايت كيا ہے.

اس كى باقى تفصيل آپ سوال نمبر ( 319 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.

ليكن عورت كا يہ اعتقاد ركھنا كہ ولادت كے بعد چاليس يوم تك گھر ميں رہے اور باہر نہ نكلے يہ اعتقاد غلط ہے، عورت كو ايسا كرنا لازم نہيں، بلكہ اس كے ليے شرعى شروط پر عمل كرتے ہوئے گھر سے نكل كر كہيں بھى جانا جائز ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد