جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

بالوں میں پونیاں اور دیگر چیزیں لگی ہوں تو عورت سر کا مسح کیسے کرے؟

سوال

اگر بالوں میں کیچر، پونی، ربڑ بینڈ اور کلپ وغیرہ تھوڑی یا زیادہ مقدار میں لگے ہوئے ہوں تو کیا ان پر مسح کرنا جائز ہے؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ بالوں کو رول کر کے کلپ لگا دیا جائے ، یا چھوٹی چھوٹی بہت زیادہ مینڈھیاں بنا دی جائیں تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

وضو کے فرائض میں سر کا مسح بھی شامل ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
  يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ 
 ترجمہ: اے ایمان والو! تم جب بھی نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو اور کہنیوں سمیت ہاتھوں کو دھو لیا کرو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لو۔[المائدۃ : 6]

اب اس بات میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں کہ کتنے سر کا مسح کرنا واجب ہے؟ کیا پورے سر کا مسح؟ یا سر کے کچھ حصے کا مسح کرنا بھی کافی ہو گا؟ تو امام مالک اور امام احمد پورے سر کے مسح کے قائل ہیں، اور یہی موقف راجح ہے۔

وضو میں سر کے مسح کے دو طریقے احادیث میں آتے ہیں:

پہلا طریقہ: پانی سے اپنے دونوں ہاتھوں کو گیلا کرنے کے بعد سر کے شروع میں رکھے اور پھر گدی کی جانب ہاتھوں کو لے جائے، اور پھر گدی سے واپس پیشانی کی طرف لے آئے۔

دوسرا طریقہ: اپنے سر کا مسح ہاتھوں کو صرف بالوں کی سمت کی جانب لے جا کر اس طرح کرے کہ بال بکھرنے نہ پائیں۔

یہ دوسرا طریقہ ایسے مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں مناسب ہے جن کے بال لمبے ہوتے ہیں؛ کیونکہ ہاتھ واپس لانے سے بالوں کے بکھر جانے کا قوی امکان ہوتا ہے۔

جیسے کہ مسند احمد: (26484) اور ابو داود: (128) میں سیدہ ربیع بن معوذ ابن عفراء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے ہاں وضو کیا تو اپنے مکمل سر کا مسح اس طرح کیا کہ سر کے اوپر سے نیچے بالوں کی جانب کر رہے تھے، آپ اپنے بالوں کی کیفیت نہیں بدل رہے تھے۔ اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ: "من قرن الشعر" کا مطلب یہ ہے کہ: سر کے اوپر والے حصے سے نیچے کی جانب آپ مسح کرتے تھے۔

علامہ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بالوں کی جڑوں سے مسح شروع کرتے اور ہاتھوں کو بالوں کی سمت میں ہی نیچے لے آتے، اور اس طرح سر کی تمام جانب پر الگ الگ ہاتھ پھیرتے ۔" ختم شد
"عون المعبود"

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/87) میں کہتے ہیں:

"اگر وضو کرنے والے کے بال ہوں اور ہاتھ واپس لوٹانے پر بال بکھرنے کا خدشہ ہو تو ہاتھ واپس نہ لوٹائے، امام احمد نے اس کی صراحت کی ہے۔ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: اگر کسی کے کندھوں تک بال ہوں تو وضو میں مسح کیسے کرے؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے ایک بار اپنے سر پر مسح کیا ، اور کہا: اس طرح مسح کرے تا کہ اس کے بال نہ بکھریں، یعنی اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے اگلے حصے سے گدی تک لے جائے واپس لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت اسی طرح ہے۔ اور اگر چاہے تو سیدہ ربیع رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق مسح کر لے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے ہاں وضو کیا تو اپنے مکمل سر کا مسح اس طرح کیا کہ ہاتھ سر کے اوپر سے نیچے؛ بالوں کی جانب کر رہے تھے، آپ اپنے بالوں کو حرکت بھی نہیں دے رہے تھے۔ اس حدیث کو ابو داود نے روایت کیا ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ سے عورت کے مسح کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ کیسے مسح کرے؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: اس طرح، اور اپنا ہاتھ سر کے درمیان میں رکھا پھر اسے آگے کی طرف لے آئے، پھر دوبارہ ہاتھ سر کے درمیان میں رکھا اور پھر سر کی پچھلی جانب لے گئے۔ بلکہ سر کے مسح کے لیے واجب حصے کا مسح کرنے کا کوئی بھی طریقہ اپنا لے سر کا مسح ٹھیک ہو گا۔" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (45867 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

اگر عورت کے سر پر زیب و زینت کے لیے پلاسٹک یا لوہے کے کلپ اور کپڑے کی پونی وغیرہ ہو اور اس سے سر کا حصہ ڈھک بھی رہا ہو تو جب پورے سر کے مسح کو واجب قرار دیں تو انہیں ہٹانا لازم ہو گا۔

جیسے کہ علامہ الباجی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عورت نے اپنے بالوں کو اون، یا اضافی بالوں کے ذریعے زیادہ کیا ہوا ہو تو عورت کے لیے ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس کے اصلی بالوں تک پانی نہیں پہنچ پائے گا، اور اگر پانی پہنچ بھی جائے تو وہ اس کے کچھ بالوں تک پہنچے گا، یہ موقف اس وقت ہے جب پورے سر کے بالوں کا مسح کرنا لازم ہو۔" ختم شد
"المنتقى" (1/ 38)

امام احمد رحمہ اللہ نے عورت کے سر کے مسح کے حوالے سے قدرے تخفیف والا موقف اپنایا اور کہا: اگر عورت اپنے سر کے صرف اگلے حصے کا مسح کر لے تو جائز ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/ 86)میں کہتے ہیں:
"سر کے مسح کے واجب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ  ترجمہ: اور اپنے سروں کا مسح کرو۔ [المائدۃ: 6]
البتہ سر کے کتنے حصے کا مسح واجب ہے؟ اس میں مختلف اقوال ہیں، چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ ہر ایک کے لیے پورے سر کے مسح کے قائل ہیں، یہی موقف خرقی رحمہ اللہ کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے اور یہی امام مالک کا موقف ہے۔

جبکہ امام احمد سے ایک روایت سر کے بعض حصہ کا مسح کرنے کی بھی ہے ۔۔۔ مکمل سر کی بجائے بعض حصے کے مسح کے قائلین میں حسن بصری، سفیان ثوری، اوزاعی، شافعی، اور اصحاب الرائے شامل ہیں۔
مرد کے لیے امام احمد کے ہاں مکمل سر کا مسح ہے کہ پورے سر کا مسح کرے اور عورت کے لیے سر کے ابتدائی حصے کا مسح کافی ہو گا۔

علامہ خلال رحمہ اللہ کہتے ہیں:
امام احمد کے فقہی مذہب میں عمل اسی بات پر ہے کہ عورت اپنے سر کے ابتدائی حصے کا مسح کر لے تو کافی ہو گا۔
اور علامہ مھنا کہتے ہیں: امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: مجھے امید ہے کہ عورت کے لیے سر کا مسح قدرے آسان ہو گا۔
میں نے کہا: یہ کیوں؟
تو امام احمد نے کہا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے سر کے ابتدائی حصے کا مسح کیا کرتی تھی۔" ختم شد
اس موقف کے مطابق عورت کے سر پر پونیاں اور کلپ لگے ہوئے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اگر بہت زیادہ مقدار میں لگے ہوئے ہوں تو انہیں اتارنا بہتر ہو گا۔

سوم:

عورت کے لیے بالوں کو رول بنا کر کلپ لگانا، یا مینڈھیاں بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، وہ جیسے بھی ہوں ان پر وضو میں مسح کر سکتی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے عورت کے جمع کردہ بالوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"عورت اپنے سر کے بالوں پر مسح کر سکتی ہے، چاہے بال جمع کر کے کلپ وغیرہ لگا ہوا ہو یا بال لٹکے ہوئے ہوں، تاہم اپنے بالوں کا جوڑا سر کے اوپر مت بنائے؛ کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں داخل نہ ہو: (اور ایسے عورتیں جو لباس پہن کر بھی برہنہ نظر آئیں، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی مانند جھکے ہوئے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی ، بلکہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے سونگھی جا سکتی ہے۔)" ختم شد
ماخوذ از: "فتاوى شیخ ابن عثیمین" (11/152)
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب