جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

اپنی زکاۃ کی رقم قرض مانگنے والے کو دے دی، لیکن اسے بتایا نہیں، تو کیا زکاۃ ادا ہو گئی؟

147124

تاریخ اشاعت : 17-01-2016

مشاہدات : 2814

سوال

کافی پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک شخص کو قرض دیا، اور میری نیت تھی کہ یہ زکاۃ ہے، لیکن میں نے اسے نہیں بتایا، اور ابھی تک اس نے وہ قرض واپس بھی نہیں کیا، تو کیا میں اسے زکاۃ میں شمار کر سکتا ہوں؟ کیونکہ میری نیت تو یہی تھی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے، چنانچہ جس شخص نے فقیر یا کسی اور زکاۃ کے مستحق  فرد کو مال زکاۃ کی نیت سے دیا تو وہ زکاۃ ہی ہوگی، اور اسی طرح جو شخص کسی کو نفلی صدقہ کی نیت سے مال دے تو اب نفل صدقہ کو زکاۃ میں شمار نہیں کر سکتا، کیونکہ اس نے نفل صدقہ کی نیت سے مال دیا تھا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/264) میں کہتے ہیں:
"تمام فقہائے کرام کا یہ موقف ہے کہ نیت زکاۃ کی ادائیگی کیلئے شرط ہے، صرف اوزاعی سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ نیت فرض نہیں ہے" انتہی

اور ابن مواق [مالکی فقیہ] "التاج والإكليل" (3/103) میں کہتے ہیں:
"اگر کسی نے مال نفلی صدقہ کی نیت سے دیا تو اب اسے زکاۃ میں شمار کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اگر مال دیتے ہوئے کسی بھی قسم کی نیت نہیں تھی تو تب بھی اسے زکاۃ میں شمار نہیں کیا جا سکتا" انتہی

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے:
"نفلی صدقہ  کرنے سے فرض زکاۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیونکہ زکاۃ کی ادائیگی عبادت ہے، اور عبادت کیلئے نیت ہونا ضروری امر ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة" (9/287)

چونکہ آپ نے مال دیتے ہوئے زکاۃ کی نیت کی تھی، اور آپ سے قرضہ اٹھانے والا شخص زکاۃ کا مستحق بھی تھا تو  یہ مال زکاۃ میں ہی شمار ہوگا، تاہم اس شخص کی نیت  سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اس نے یہ رقم قرض سمجھ کر لی تھی؛ کیونکہ  یہاں پر زکاۃ ادا کرنے والے کی نیت ہونا لازمی امر ہے، [زکاۃ لینے والے کی نیت ضروری نہیں ہے] یہی وجہ ہے کہ اس شخص کو یہ بھی بتلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ زکاۃ کا مال ہے۔

چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی مالک نے یا مالک کے نمائندے نے زکاۃ کسی کو دی اور اسے یہ نہیں بتلایا کہ یہ زکاۃ کا مال ہے بلکہ خاموشی سے مال تھما دیا، تو تب بھی اس کی زکاۃ ادا ہو چکی ہے،  یہی صحیح ترین مشہور موقف، اور جمہور اسی کے قطعی طور پر قائل ہیں" انتہی
"المجموع" (6/233)

نیز دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"اگر آپ کسی کو اپنے علم کے مطابق زکاۃ کا مستحق سمجھتے ہوئے زکاۃ دے دیتے ہیں تو اس طرح زکاۃ ادا ہو جائے گی، ہمیں اللہ تعالی سے امید ہے کہ آپ کی زکاۃ قبول بھی ہوگی، نیز آپ پر یہ بتلانا لازمی نہیں ہے کہ یہ زکاۃ کا مال ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة" (9/462)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب