منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

پہلے رشتہ كو رد كيے بغير كئى ايك رشتوں ميں مقارنہ كرنا

146610

تاریخ اشاعت : 03-07-2010

مشاہدات : 5965

سوال

كيا عورت كے ليے جائز ہے كہ ايك ہى وقت ميں كئى ايك رشتوں ميں موازنہ كرے ؟
ميں طلاق شدہ ہوں اور كچھ لوگوں كو كہا ہے كہ ميرے ليے كوئى مناسب رشتہ تلاش كريں، اس بنا پر ميں ہر ايك شخص كے ساتھ شادى كے بارہ ميں خود بات كرونگى اور قطعى فيصلہ كرنے سے قبل سب سے بات چيت كرنے كے بعد ہى كوئى فيصلہ كرونگى، اس سلسلہ ميں شريعت كى رائے كيا ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ طلاق كے بعد ميں بہت شرميلى ہو گئى ہوں اور خاوند كے اختيار ميں بہت احتياط برت رہى ہوں اس كے ليے ميں ايك لمبا سانس لينا چاہتى ہوں اور ايك شخص سے زائد كے ساتھ بات كرنا چاہتى ہوں تا كہ مناسب رشتہ كو قبول كر سكوں، برائے مہربانى مجھے كوئى نصيحت فرمائيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت كے ليے ايك ہى وقت ميں اپنے ليے آنے والے رشتوں ميں ايك سے زائد رشتوں كے بارہ ميں كسى ايك كو جواب دينے سے قبل غور و فكر كر سكتى ہے؛ اس كى دليل صحيح مسلم كى درج ذيل روايت ہے:

فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بيان كيا كہ معاويہ بن ابى سفيان اور ابو جھم نے مجھ سے نكاح كرنے كا پيغام بھيجا ہے.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

ابو جھم تو اپنے كندھے سے لاٹھى ہى نہيں ركھتا، اور رہا معاويہ تو تنگ دست ہے اس كے پاس مال نہيں، تم اسامہ بن زيد سے نكاح كر لو، تو ميں نے اسے ناپسند كيا.

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اسامہ سے نكح كر لو، تو ميں نے اسامہ سے نكاح كر ليا، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ميں ميرے ليے خير عظيم بنايا، اور مجھ پر رشك كيا جانے لگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1480 ).

يہ اس بات كى دليل ہے كہ كسى كو جواب دينے سے قبل ايك ہى وقت ميں كئى ايك رشتوں كے متعلق غور و خوض ہو سكتا ہے، اور اگر نكاح بھيجنے والوں ميں سے كسى ايك شخص كو جواب مل جائے تو پھر كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ پہلى منگنى كا علم ہوتے ہوئے نكاح كا پيغام بھيجے.

كيوكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كوئى بھى شخص اپنے بھائى كى منگنى پر اس وقت نكاح كا پيغام مت بھيجے جب تك پہلے كو چھوڑ نہ ديا جائے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4848 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1412 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ حديث منگنى پر منگنى كرنے كى حرمت كى واضح دليل ہے، علماء كا اجماع ہے كہ جب پيغام دينے والے كو ہاں كر دى گئى ہو تو پھر كسى دوسرے كا پيغام دينا حرام ہے، جب تك اسے اجازت نہ دى جائے يا پھر وہ چھوڑ نہ دے " انتہى

ديكھيں: شرح مسلم ( 9 / 197 ).

يہ تو مرد كے بنسبت ہے، كہ اس كو حق حاصل نہيں كہ وہ اپنے بھائى كے پيغام پر پيغام دے، حتى كہ اس كو اجازت دى جائے يا پھر وہ منگنى ختم كر دے.

ليكن عورت كے متعلق يہ ہے كہ: اگر وہ يہ جان لے كہ فلان شخص زيادہ بہتر ہے، كہ وہ پہلى منگنى ختم كرنے كى صورت ميں اسے نكاح كا پيغام دےگا، تو منگنى ختم كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ دوسرے شخص كى جانب سے اس ميں كوئى دخل نہ ہو.

كيونكہ منگنى كرنے والے مرد اور عورت كو حق حاصل ہے كہ جب بھى وہ مصلحت ديكھيں تو منگنى كو قسخ كر سكتے ہيں، اور فسخ كرتے وقت انہيں استخارہ ضرور كرنا چاہيے اس كے بعد وہ نئے پيغام كو قبول كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب