جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کرسمس کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے خوشی منانا، اور اپنے گھروں کو غباروں سے مزین کرنا

سوال

 آپ برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو کرسمس کے دن یا اس سے کچھ روز بعد کرسمس کی مناسبت سے اپنے مسلم اہل خانہ کیلئے تقریبِ عشائیہ منعقد کرتے ہیں، عشائیہ کے کھانے میں ترکی چکن روسٹ، اور کرسمس کے مخصوص دیگر کھانے تیار کیے جاتے ہیں، یہ لوگ اپنے گھروں کوغباروں، کاغذ کے پھولوں سے سجاتے ہیں، اور اس تقریب میں شرکت کیلئے ہر شخص دیگر شرکاء میں سے کسی ایک کیلئے "سانتا کا خفیہ تحفہ" بھی تیار کرتا ہے، اور لوگ ان تحائف کو مطلوبہ افراد تک پہنچانے کیلئے تقریب میں لیکر آتے ہیں، لیکن کسی کو اپنے بارے میں نہیں بتلاتے، ("سانتا کا خفیہ تحفہ" کرسمس منانے والے غیر مسلموں میں پذیرائی حاصل کرنے والی ایک نئی رسم ہے، جو کہ Santa Claus [کرسمس کا بابا] کے افسانوی کردار سے متعلق نظریات سے منسلک ہے) تو کیا ایسا کرنا جائز ہے یا حرام؟ واضح رہے کہ اس تقریب صرف مسلمان برادری ہی شرکت کرسکتی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

مذکورہ تقریبات کے حرام ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کوئی عید نہیں ہے، اور ہفت روزہ عید جمعہ کا دن ہے، چنانچہ ان کے علاوہ کوئی بھی جشن ، تہوار اسلام میں  منع ہے،اور  یہ اضافی جشن و تہوار  دو حال سے خالی نہیں ہیں:

1-  بدعت: یہ اس صورت میں ہوگا کہ اس جشن اور تہوار کو قربِ الہی کیلئے منایا جائے، مثلاً: عید میلاد النبی۔

2- کفار سے مشابہت: جب اس جشن یا تہوار کو رسم و رواج کے طور پر منایا جائے عبادت کے طور پر مت منایا جائے؛  چونکہ خود ساختہ تہوار منانا اہل کتاب کا شیوہ ہے، اور ہمیں ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے،پھر جب عام تہوارات منانا ان سے مشابہت ہے تو اہل کتاب کیساتھ مختص تہوارمنانا اور ان میں شرکت کرنا کیسا ہوگا!!

کرسمس کے وقت گھروں کو غباروں سے مزین کرنا  کفار کی عید میں کھلم کھلاشرکت کا اظہار ہے۔

اور ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ ان ایام کو جشن، زیب و زینت، اور کھانے پینے کیلئے مختص مت کرے، وگرنہ وہ بھی کفار کے تہوار میں شریک تصور ہوگا، اور یہ کام حرام ہے، جس  کی حرمت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی طرح مسلمانوں پر  کرسمس کی مناسبت سے تقاریب کرنا، تحائف کا تبادلہ ، مٹھائیوں کی تقسیم ، کھانوں کی تیاری، اور تعطیل عام کرتے ہوئے کفار  کیساتھ مشابہت اپنانا   حرام ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ : (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب (اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم)میں کہا ہے کہ: کفار کے کچھ تہواروں میں شرکت سے انہیں اپنے باطل نظریات پر قائم رہنے کی خوشی محسوس ہوتی ہے، اور بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ  کچھ لوگ ایسے مواقع کا غلط فائدہ اٹھا کر کمزور ایمان لوگوں کو بہکا دیں" ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔

ایسا کام کرنے والا شخص گناہگار ہے، اور اس میں کسی کا دل رکھنے کیلئے ، یا  دلی چاہت کی بنا پر یا کسی سے حیا کرتے ہوئے شرکت کرنے والے سب لوگ گناہگار ہونگے، کیونکہ یہ عمل دینِ الہی کے باری میں ناقابل برداشت سستی ہے، اور کفار کے لئے اپنے گمراہ عقائد پر مضبوط ہونے کی دلیل ہے، وہ مسلمانوں کی شرکت سے اپنے دین پر فخر محسوس کرینگے" انتہی
"فتاوى ابن عثیمین" (3/ 44)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا اس مسئلہ کے بارے میں تفصیلی جواب ہے، جس [کے ] متن [کا ترجمہ یہ ] ہے:
آپ سے  کچھ مسلمانوں کی طرف سے نوروز کے دن عیسائیوں کیلئے کھانا بنانا، رسمِ "غطاس" [عیسائیوں کے ہاں مقدس جگہ پر نہانے کی رسم] "جمعرات کی دال" [مخصوص جمعرات کو تیار کیا جانے والا اناج کا کھانا] "مقدس ہفتے کا دن" [عید الفصح کے بعد عیسائیوں کے ہاں ہفتے کا مقدس دن] وغیرہ منانا اور ان  تہواروں کیلئے معاون اشیاء کی خرید و فروخت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ کام کرنےمسلمانوں کیلئے جائز ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"الحمد للہ:
کسی بھی مسلمان کیلئے عیسائیوں کے مخصوص  اعمال میں انکی  مشابہت  کرنا جائز نہیں ہے، مثلا ان جیسے کھانے بنانا، لباس پہننا، نہانا، آگ جلانا، شمعیں روشن کرنا، عام تعطیل کرنا وغیرہ سب منع ہیں، کھانے کی دعوت کرنا، تحائف دینا، اور ان تہواروں کیلئے معاون بننے والی اشیاء فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ بچوں کو انکی عید کے دنوں میں [انہی جیسے]کھیل کود کی اجازت دینا، اور زیب و زینت اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کیلئے عیسائیوں کے کسی بھی تہوار اور شعار کو اپنانا جائز نہیں ہے، بلکہ  انکی عید کے دن مسلمانوں کے ہاں عام دنوں کی طرح گزارے جائیں، مسلمان انکے امتیازی  امور نہیں اپنا سکتے۔۔۔، گزشتہ امور کو مسلمانوں کی طرف سے اپنانے کے بارے میں حرمت کا حکم تمام علمائے  کرام کا متفقہ ہے۔
بلکہ کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ ان کاموں کے کرنے سے انسان کافر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کاموں کی وجہ سے کفریہ شعائر کی تعظیم ہوتی ہے، اور کچھ علماء کا کہنا ہے کہ : جو شخص انکی عید کے دن جانور ذبح کرے گویا کہ اس نے خنزیر ذبح  کیا۔
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: جو شخص عجمیوں کے پیچھے لگ کر نوروز، اور مہرجان کا دن مناتا ہے، اور مرتے دم تک ان کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ قیامت  کے  د ن انہی کےساتھ اٹھایا جائے گا۔
سنن ابو داود میں  ثابت بن ضحاک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں ایک شخص نے "بوانہ" جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی،  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا  اور عرض کیا: "میں نے "بوانہ" جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے استفسار فرمایا: (کیا وہاں پر  جاہلیت کے دور میں کسی بت کی پوچا تو نہیں ہوتی تھی؟) اس نے کہا: "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے استفسار فرمایا: (کیا وہاں پر کوئی انکا تہوار تو نہیں لگتا تھا؟) اس نے کہا: "نہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (جاؤ اپنی نذر پوری کرو ، اور ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو، اور ایسی چیز کی نذر بھی پوری نہیں کی جاسکتی جو ابن آدم کی ملکیت میں نہ ہو)
حالانکہ نذر پوری کرنا واجب ہے لیکن اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آدمی کو اس وقت تک نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دی جب تک اس نے یہ نہیں بتلا دیا کہ وہاں پر کفار کا کوئی تہوار منعقد نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے یہ بھی بتلا دیا کہ : (ایسی کوئی نذر پوری نہیں کی جاتی جس میں اللہ کی نافرمانی ہو)، چنانچہ انکے تہوار والی جگہ پر اللہ کیلئے ذبح کرنا معصیت ہے تو انکے تہوار میں بنفسِ نفیس شرکت کتنا بڑا گناہ ہوگا؟

بلکہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مسلم حکمرانوں کی طرف سے غیر مسلموں پر لازمی تھا کہ اپنے تہوار مسلمانوں کے درمیان اعلانیہ نہیں منائیں گے، بلکہ اپنے گھروں میں محصور ہو کر  اپنے مذہبی تہوار منائیں گے، اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کا یہ حال ہونا چاہئے تھا  لیکن  اگر خود مسلمان ایسا کرنے لگ جائیں تو پھر کیا حال ہوگا؟

اور امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہاں تک فرمایا: "عجمیوں کی زبان مت سیکھو، اور مشرکوں کے معبد خانوں میں انکے تہوار کے دن مت جاؤ، کیونکہ ان پر اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے" اگر مشرکوں کے معبد خانوں میں سیر و سیاحت یا کسی اور غرض سے جانا منع ہے کہ وہاں اللہ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو خود کفار کے شعائر میں سے اللہ کی ناراضگی کا باعث بننے والا عمل سر انجام دیتا ہے؟!

بہت سے سلف صالحین نے قرآن مجید کی آیت (والذين لا يشهدون الزور) [آیت کا مفہوم: مؤمن وہ ہیں جو غلط محفلوں میں شرکت نہیں کرتے]کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں "زُور" سے مراد کفار کے تہوار ہیں،  اگر کفار  کی محفلوں میں کوئی عمل سر انجام نہ دینا ہو،  صرف حاضری پر یہ بات ہے، تو کفار کے مخصوص اعمال کرنے پر کتنا بڑی بات ہوگی؟!
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسند اور سنن [ابو داود] میں ہے کہ آپ نے فرمایا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے) اور ایک حدیث میں الفاظ یوں ہیں: (وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں [غیر مسلموں] کی مشابہت اختیار کرے) یہ حدیث جید ہے؛ چنانچہ کفار کیساتھ عادات میں مشابہت اختیار کرنے میں  اتنی بڑی وعید ہے ، تو اس سے بڑھ کر عبادات میں مشابہت اختیار کرنے میں  کتنی بڑی وعید ہوگی؟!۔۔۔" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (2/ 487)، مجموع الفتاوى (25/ 329)

مزید کیلئے سوال نمبر: (13642) کا مطالعہ بھی کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب