جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

بدعتى يا كافر كا پڑھايا ہوا نكاح

145281

تاریخ اشاعت : 26-05-2012

مشاہدات : 3161

سوال

ميرا تعلق عراق سے ہے الحمد للہ ميں شادى شدہ ہوں ميرا نكاح ايك شيعہ عالم نے پڑھايا تھا، اور نكاح ميں وہى كچھ تھا جو اہل سنت كرتے ہيں، الحمد للہ ميں اور ميرى بيوى دونوں اہل سنت سے تعلق ركھتے ہيں، آپ كو معلوم ہے كہ اس وقت عراق ميں اہل سنت كے ساتھ كيا كچھ ہورہا ہے ان كے خطيب اور امام اور علماء سے بائيكاٹ كيا جا رہا ہے.
مجھے يہ بتائيں كہ كيا ميرے نكاح ميں كوئى اشكال تو نہں، اور اگر آپ نكاح نامہ ديكھنا چاہتے ہيں تو ميں اس كے ليے بھى تيار ہوں، مجھے شك سا رہتا ہے، برائے مہربانى مجھےتفصيل كے ساتھ جواب عنائت فرمائيں تا كہ ميرا دل مطئمن ہو، عقد نكاح ميں لكھا ہے كہ عقد نكاح اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كےطريقہ پر كياگيا ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

نكاح صحيح ہونے كے ليے شرط ہے كہ نكاح عورت كا ولى يا اس كا وكيل كرے، عورت كو اپنا نكاح خود كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں؛ كيونكہ حديث ميں اس كى ممانعت آئى ہے:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ايك حديث ميں جسے امام بيہقى نے عائشہ اور عمران رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

علامہ البانى رحمہ اللہ صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نےصحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عورت كا ولى اس كا باپ ہے، اور پھر اس كے بعد داد پھر عورت كا بيٹا اور پھر پوتا ( يہ تو اس صورت ميں ہے جب اس عورت كا بيٹا ہو ) پھر عورت كا سگا بھائى اور پھر والد كى طرف سے بھائى، پھر ان كى اولاد پھر عورت كے چچا، اور پھر چچا كى اولاد، اور پھر باپ كى جانب سے چچا اور پھر حاكم.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 355 ).

نكاح كے اركان جن كے بغير نكاح صحيح نہيں ہوتا وہ درج ذيل ہيں:

ايجاب و قبول، يعنى لڑكى كے ولى يا اس كى وكيل كى جانب سے ايجاب ہو، اور خاوند يا اس كے وكيل كى جانب سے قبول كيا جائے.

مثلا ولى يعنى لڑكى كا باپ كہے: ميں نے اپنى فلاں بيٹى كا نكاح تيرے ساتھ كيا، اور خاوند كہے ميں نے قبول كى.

يا پھر لڑكى كے ولى كا وكيل اس طرح كہے: ميں نے اپنے مؤكل كى فلاں بيٹى كا نكاح تيرے ساتھ كيا.

اور خاوند كا وكيل كہے كہ ميں نے اپنے فلاں مؤكل كے ليے اسے قبول كيا.

مالكى كتب كى شرح مختصر خليل ميں خرشى رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:

" نكاح كے اركان يہ ہيں:

ولى اور مہر اور جگہ اور الفاظ " اس سے يہ اشارہ كيا گيا ہے كہ نكاح كے پانچ اركان ہيں: جن ميں ولى شامل ہے، لہذا ولى كے بغير نكاح صحيح نہيں ہوگا...

اور اركان ميں ولى يا اس كے وكيل كى جانب سے صادر شدہ الفاظ شامل ہيں جو نكاح پر دلالت كرتے ہوں " انتہى

ديكھيں: شرح مختصر خليل ( 3 / 172 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ايجاب و قبول " ايجاب ان الفاظ كا نام ہے جو لڑكى كے ولى يا اس كے قائم مقام كى جانب سے ادا ہوتے ہيں، اور قبول وہ الفاظ ہيں جو خاوند يا اس كے قائم مقام كى جانب سے صادر ہوتے ہيں.

مثلا ولى باپ يا بھائى وغيرہ كہے: ميں نے اپنى بيٹى، اپنى بہن كا نكاح تيرے ساتھ كيا، اسے ايجاب كا نام اس ليے ديا جاتا ہے كيونكہ اس نے عقد نكاح كو واجب كيا ہے، اور قبول وہ الفاظ ہيں جو خاوند يا اس كے قائم مقام كى جانب سے صادر ہوں "

پھر ان كا كہنا ہے:

قولہ: " ميں نے يہ نكاح قبول كيا، يہ الفاظ خاوند يا ا سكا قائم مقام كہےگا، ليكن خاوند كا قائم مقام شخص مطلقا الفاظ ادا كرتے ہوئے يہ نہيں كہے گا كہ ميں نے نكاح قبول كيا، بلكہ اس كے ليے يہ كہنا ضرورى ہےكہ ميں نے اپنے فلاں مؤكل كے ليے اسے قبول كيا، اسى طرح اگر ولى كا وكيل ہو تو مثلا وكيل يہ كہےگا:

ميں نے اپنے فلاں مؤكل كى فلاں بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا، يا پھر ميں نے وكالتاً فلاں بنت فلاں كو تيرے نكاح ميں ديا.

اور اگر وہ يہ كہے كہ: ميں نے تيرے ساتھ فلاں كى بيٹى كا نكاح كيا تو يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ اسے تو اس لڑكى پر ولايت حاصل ہى نہيں، وہ فلاں كى بيٹى كا نكاح كرنے كا سبب بيان كرے كيونكہ وہ تو وكيل ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 36 - 42 ) .

لہذا اگر عقد نكاح بالكل اس طرح ہوا ہے جو ہم ابھى اوپر ذكر كر آئے ہيں، اور عورت كے ولى يا وكيل كى جانب سے ايجاب اور آپ كى جانب سے دو مسلمان گواہوں كى موجودگى ميں قبول ہوا ہے، يا پھر نكاح كا اعلان اور شہرت ہو گئى ہے چاہے گواہوں نے عقد نكاح ميں گواہى نہ بھى دى ہو تو يہ عقد نكاح صحيح ہے.

اور نكاح رجسٹرار كى حالت كا كوئى اثر نہيں يا پھر ولى اور خاوند ايجاب و قبول كے صيغہ كى تليقين كريں.

اس ليے اگر نكاح رجسٹرار كافر ہو جيسا كہ بعض يورپى ممالك ميں ہوتا ہے تو كوئى نقصان نہيں جب ولى اور خاوند كے مابين ايجاب و قبول ہوا ہے.

نكاح ميں گواہى كى مزيد تفصيل ديكھنے كےليے آپ سوال نمبر ( 124678 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب