جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

نیک آدمی کا ہاتھ چومنے اور اس کے سامنے جھکنے کا حکم

سوال

نیک آدمی کا ہاتھ چومنے اور اس کے سامنے جھکنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

"ہاتھ چومنے کے متعلق یہ ہے کہ جمہور اہل علم اس کے مکروہ ہونے کے قائل ہیں، خصوصاً ایسی صورت میں جب ہاتھ چومنا عادت ہو، لیکن اگر یہ عمل کسی نیک شخص کے ساتھ ، یا نیک حکمران، والد یا اسی طرح کی معزز شخصیات کے ساتھ کبھی کبھار ملتے ہوئے کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کو عادت بنا لینا مکروہ ہے۔

بعض اہل علم نے اسے اس وقت حرام قرار دیا ہے جب ہاتھ چومنے کا عمل عادت اور ہر ملاقات کے میں ہو، لیکن اگر بسا اوقات ہاتھوں پر بوسہ دیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جبکہ ہاتھ پر سجدہ کرنا کہ اپنی پیشانی کسی کے ہاتھ پر رکھے، [یا جھک کر پیشانی اس کے ہاتھ پر لگائے] تو یہ حرام سجدہ ہے، اسے اہل علم سجدہ صغریٰ کہتے ہیں، یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں اپنی پیشانی کسی کے ہاتھ پر سجدے کے طور پر رکھتا ہے ، یہ جائز نہیں ہے، ہاں البتہ ہاتھ کو ہونٹوں سے بوسہ دینا معمول کا عمل نہ ہو بلکہ کبھی کبھار کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ صحابہ کرام نے آپ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا ، لہذا اگر کبھی کبھار ہو تو اس میں گنجائش ہے، لیکن اسے عادت بنا لیا جائے اور ہمیشہ کیا جائے تو یہ مکروہ ہے یا حرام عمل ہے۔

جبکہ جھکنا جائز نہیں ہے، یعنی رکوع کرنے والے کی طرح انسان جھکے یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ رکوع کرنا بھی عبادت ہے اس لیے کسی کے سامنے جھکنا جائز نہیں ، تاہم اگر کوئی شخص کسی کے سامنے تعظیم کے لئے نہیں جھکتا بلکہ مخاطب کا قد چھوٹا ہے اور سلام کرنے والا لمبے قد کا ہے تو وہ مصافحہ کرنے کی غرض سے جھک جاتا ہے ، یا اس لیے جھکتا ہے کہ مخاطب شخص بیٹھا ہوا ہے یا لیٹا ہوا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص تعظیم کے لئے جھکتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے بلکہ تعظیم سے جھکنے کے متعلق اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ کہیں یہ جھکاؤ شرک میں شمار نہ ہو جائے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا:
(اللہ کے رسول! میں کسی آدمی کو ملتا ہوں تو کیا میں اس کے سامنے جھکوں؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: نہیں
پھر سائل نے پوچھا: کیا میں اس سے بغل گیر ہو جاؤں اور اسے بوسہ دوں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: نہیں
پھر سائل نے پوچھا: کیا میں اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کروں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں)
اس حدیث کی سند میں ضعیف راوی ہے، یعنی اس حدیث کی سند ضعیف ہے، تاہم اس پر عمل کرنا چاہیے؛ کیونکہ اس حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں جو اس حدیث کے مفہوم کو تقویت پہنچاتے ہیں، نیز اس چیز کے بہت سے دلائل ہیں کہ لوگوں کے سامنے جھکنا یا رکوع کرنا جائز نہیں ہے۔

تو خلاصہ یہ ہے کہ: کسی بھی شخص کے سامنے جھکنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ بادشاہ ہو یا کوئی اور ، لیکن جب جھکنے کا عمل تعظیم کے لئے نہ ہو بلکہ سلام کرنے کے لئے ہو مثلاً: ایک شخص چھوٹے قد کا ہے یا بیٹھا ہوا ہے، یا لیٹا ہوا ہے تو اس کو سلام کرنے کے لئے جھک جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ " ختم شد
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ الله

"فتاوى نور علی الدرب" (1/491 ، 492)
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب