ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

عقد نكاح كے دو دن بعد شك ہوا كہ ايجاب و قبول كے وقت اس كا ذہن منتشر تھا

131750

تاریخ اشاعت : 25-02-2012

مشاہدات : 4084

سوال

ميرى شادى كے دو دن بعد مجھے خيال آيا كہ نكاح ميں ايجاب و قبول كے وقت تو ميرا ذہن منتشر تھا، مجھے اس كى تفصيل كا كوئى علم نہيں، ليكن مجھے يہ تو علم تھا كہ يہ عقد نكاح كے ليے ضرورى ہے، كيا يہ چيز عقد نكاح پر اثرانداز تو نہيں ہو گى ؟
اور آخر ميں يہ كہ عقد نكاح كے فارم پر دستخط كرنا زبانى ايجاب و قبول كے ليے كيوں كافى نہيں ہے، كيا يہ دستخط اور اسى طرح گواہوں اور ولى كے دستخط ايجاب و قبول شمار نہيں ہونگے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ايجاب و قبول عقد نكاح كے اركان ميں شامل ہوتا ہے اس كے بغير عقد نكاح صحيح نہيں ہوتا، كيونہ يہ عقد نكاح كے دونوں فريقوں كى رضا پر دلالت كرتا ہے.

خريد و فروخت اور كرايہ وغيرہ كے عقد ميں تو علماء كرام تساہل كرتے ہيں كہ يہاں فعلى ايجاب و قبول مثلا معاہدہ پر دستخط كرنا، يا خريدار كا بائع كو رقم ادا كرنا اور سامان قبضہ ميں كر لينا يہ سب زبان سے ادا كيے بغير صحيح ہے.

ليكن عقد نكاح ميں زبان سے ايجاب و قبول ضرورى ہے اور يہ نكاح كے مقام كى بنا پر ہے، كيونكہ يہ تو خريدو فروخت سے زيادہ خطرناك ہے، تا كہ گواہ كے ليے صحيح طور پر گواہى دينا ممكن ہو كہ انہوں نے صريحا خود اپنے كانوں سے ايجاب و قبول سنا ہے جس ميں كوئى احتمال يا چھپاؤ نہ رہے.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك نكاح ہوا اور لكھا بھى گيا اس پر خاوند اور بيوى اور ولى اور گواہوں كے دستخط بھى ہوئے، ليكن زبانى طور پر ايجاب و قبول نہيں ہوا تو اس كے متعلق كيا حكم ہے ؟

كميٹى كےعلماء كا جواب تھا:

" مذكورہ عقد نكاح كو دوبارہ كرنا ضرورى ہے؛ كيونكہ صرف لكھے ہوئے عقد نكاح پر دستخط كرنا ہى عقد نكاح كے ليے كافى نہيں؛ بلكہ اس كے ليے زبانى طور پر ايجاب كو قبول ہونا ضرورى ہے، كہ عورت كے ولى كى جانب سے ايجاب اور خاوند كى جانب سے قبول چاہے وہ كسى بھى لفظ كے ساتھ ہوں جو لوگوں ميں رائج ہو ہونا ضرورى ہے.

اس ليے جو يہ عقد نكاح ہوا ہے وہ باطل ہے، اس ميں شامل سب كو توبہ كرنى چاہيے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 85 - 86 ).

صرف گواہى كا اعلان كرنے پر ہى اكتفا كرنا يہ قوى قول ہے، اور امام مالك كا مسلك يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے اختيار كيا اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح كہا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 124678 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور احتياط اسى ميں ہے كہ دونوں كو جمع كيا جائے يعنى گواہى اور اعلان.

دوم:

آپ كا يہ قول كہ:

" ميرے ذہن ميں بات آئى كہ ميں تو ايجاب و قبول كے وقت منتشر الذہن تھا "

يہ شيطانى وسوسہ ہے تا كہ وہ آپ كو شك و پريشانى اور اضطراب ميں ڈال سكے، عقد نكاح ايسى چيز نہيں كہ اس ميں دل كا خشوع و خضوع ہونا چاہيے كہ ذہنى انتشار ہونے يہ متاثر ہو جائے، اس ليے جب آپ كو يہ علم تھا كہ يہ ايجاب و قبول عقد نكاح كے ليے ضرورى ہے اور يہ ايجاب و قبول ہو گيا تو يہ عقد نكاح صحيح ہے، اور اس وسوسہ كى جانب التفات مت كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب