جمعہ 17 شوال 1445 - 26 اپریل 2024
اردو

تين طلاق والى عورت كے ساتھ اس نيت سے شادى كرنا كہ يہ پہلے خاوند كے ليے حلال ہو جائے

131290

تاریخ اشاعت : 11-02-2010

مشاہدات : 4703

سوال

پانچ برس قبل ميں نے حماقت كى اور شرعى عدالت ميں كئى ايك اسباب كى بنا پر اپنى بيوى كو تين طلاقيں دے ديں... اور طلاق كے ايك دن بعد ميں اور ميرى بيوى نے محسوس كيا كہ ہم نے اپنے اور اولاد كے حق ميں بہت بڑى غلطى كى ہے، ہم نے كوئى ايسا وسيلہ اور دروازہ نہيں چھوڑا تا كہ ہم دوبارہ خاوند اور بيوى بن سكيں.
ليكن سب علماء يہى كہتے ہيں كہ تم اس وقت تك دوبارہ خاوند اور بيوى نہيں بن سكتے جب تك تمہارى بيوى كسى دوسرے مرد سے شادى نہ كر لے اور وہ اس سے دخول كرے اور پھر يا تو وہ اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے...
ميں اور سابقہ بيوى روزانہ ٹيلى فون پر اولاد كے متعلق بات چيت كرتے ہيں، مجھے يہ بتائيں كہ اگر ميرى بيوى حلال ہونے كى نيت سے كسى مرد سے شادى كر لے اور مجھے علم ہو كہ وہ اس شخص كے ساتھ كيا كرنے والى ہے ليكن اس شخص كے ساتھ كوئى اتفاق نہ ہو تو كيا يہ جائز ہو گا ؟
اور كيا اگر دخول كے بعد بيوى اس سے طلاق كا مطالبہ كرے يا پھر خلع لے لے تو كيا يہ جائز ہو گا، ہميں كيا كرنا چاہيے تا كہ ميرى بيوى ميرے پاس واپس آ جائے اور اولاد بھى اپنے والد كے پاس واپس آ جائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب آدمى اپنى بيوى كو تين طلاق دے دے تو وہ اس كے ليے حلال نہيں رہتى حتى كہ وہ كسى دوسرے خاوند سے شادى كر لے، اور يہ نكاح رغبت ہو نہ كہ نكاح حلالہ، پھر وہ اس كو خود ہى چھور دے تو پہلے خاوند كے ليے حلال ہوگى.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے تو وہ اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى حتى كہ وہ كسى اور سے نكاح نہ كر لے البقرۃ ( 230 ).

سنن ابو داود ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كرانے والے پر لعنت كرے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 109245 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور يہ حلالہ اگر طلاق دينے والے اور بيوى اور حلالہ كرنے والے كے اتفاق سے ہو يہ اس كا معاملہ بالكل واضح ہے كہ يہ حرام ہے، اور كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے، اور اسى طرح اگر حلالہ كرنے والا خود اپنى جانب سے اس كى نيت كرے تو بھى يہ حلالہ جمہور فقھاء كے ہاں حرام ہوگا.

فقھاء كا اس ميں اختلاف ہے كہ اگر عورت دوسرے خاوند سے شادى كرنے ميں حلالہ كى نيت ركھے اور اپنے دوسرے خاوند كے علم ميں نہ لائے اس كى صورت يہ ہے كہ وہ عورت دوسرے شخص سے حلالہ كى غرض سے شادى كرے پھر اسے طلاق دينے كا كہے يا پھر نكاح فسخ كر دے تا كہ پہلے خاوند كے پاس واپس آ جائے تو اہل علم كى ايك جماعت ـ حنابلہ اور حسن اور ابراہيم نخعى كے ہاں يہى صحيح ہے ـ كے ہاں يہ حلالہ حرام ہوگا، اس ليے باطن ميں وہ اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى، يعنى اس عورت اور اس كے رب كے مابين.

اور كچھ اہل علم كہتے ہيں كہ عورت كى نيت اس پر مؤثر نہيں ہوگى، اس ليے اگر وہ خاوند اسے طلاق دے ديتا ہے تو وہ پہلے خاوند كے ليے حلال ہو جائيگى، مالكيہ اور حنابلہ كا يہى مسلك ہے.

ليكن راجح پہلا قول ہى ہے؛ كيونكہ اس عورت كا يہ فعل شريعت كے حرام كردہ چيز كے ليے ايك حيلہ ہے، كيونكہ شريعت نے اسے پہلے خاوند كى طرف جانے سے منع كيا ہے حتى كہ رغبت و ہميشہ كى بنا پر اس كا نكاح نہ ہو جائے، يہ نہيں كہ صرف وقتى نكاح ہو جس سے پہلے خاوند تك پہنچنا مقصود ہو اور اس ليے بھى كہ اس عورت كے اس عمل ميں دوسرے خاوند كے ليے دھوكہ و فراڈ پايا جاتا ہے، اور غالبا اسے نقصان و ضرر پہنچے گا، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ عورت اس سے اس وقت تك چھٹكارا حاصل نہ كر پائے جب تك وہ اپنے خاوند سے برا سلوك نہ كرے تا كہ وہ اسے طلاق دے دے يا پھر وہ خلع حاصل كر لے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حسن اور نخعى وغيرہ كہتے ہيں: جب تينوں ميں سے كسى ايك نے ارادہ كيا تو يہ نكاح حلالہ ہے، اور ابن مسيب سے بھى يہى مروى ہے، اور ابراہيم نخعى رحمہ اللہ كے الفاظ يہ ہيں: اگر تينوں ( پہلا خاوند يا دوسرا يا عورت ) ميں سے كسى ايك كى نيت يہ ہو كہ وہ حلالہ كر رہا ہے تو يہ آخرى نكاح باطل ہے اور پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى.

اس كى وجہ يہ ہے كہ: جب عورت نكاح كرے اور اس كى نكاح ميں رغبت نہ ہو تو جيسا كہ بيان ہو چكا ہے يہ نكاح كرنے والى نہيں ہے، بلكہ يہ تو اللہ كى آيات اور اس كى حدود كے ساتھ كھلواڑ كر رہى ہے، اور وہ آدمى كو دھوكہ و فريب دے رہى ہے اور اس سے مكر كر رہى ہے، اگرچہ وہ اكيلے عليحدہ ہونے كى مالك نہيں ليكن اس نے نيت تو كر ركھى ہے جس سے يہ عليحدگى حاصل ہونے كا سبب بنےگى اور غالبا اسكى نيت ہوتى ہے كہ وہ اس سے خلع حاصل كر لےگى، اور اس سے بےرغبتى كا اظہار كرےگى اور اسے ناپسند اور اس سے بغض ركھے گى، اور يہ اشياء اس كے خلع يا طلاق كا باعث بنيں گى اور غالب ميں يہى اشياء اس كا باعث بنتى ہيں، پھر اگر اس كے ساتھ وہ كچھ مل جائے كہ اس كى نيت تھى كہ وہ اس كى بات نہيں مانےگى اور ايسے كام كريگى جسے وہ ناپسند كرے اور جو اسے كرنا چاہيے تھا اسے ترك كر دےگى تو يہ حرام ہے اور يہى چيز عام طور پر عليحدگى كا باعث بنتى ہے.

تو يہ بالكل اسى طرح ہوا كہ اگر وہ ايسى چيز كى نيت ركھے جو شرعا عليحدگى واجب كرتى ہو، اگرچہ نہ تو وہ حرام كام كے ارتكاب كى نيت ركھے اور نہ ہى واجب كے ترك كرنے كى، تو يہ اس كا ارادہ نہيں ركھتى، اسى طرح گمان ميں ہے كہ وہ اس كے ساتھ اللہ كى حدود كا پاس نہيں كريگى، اور نہ ہى ان ميں نكاح كا مقصد پورا ہوگا جو كہ غالبا عليحدگى كا باعث بنتا ہے.

اور يہ بھى ہے كہ: عقد نكاح تو خاوند اور بيوى ميں محبت و مودت اور الفت ڈالتا ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب كريم قرآن مجيد ميں بھى اس كا ذكر كيا ہے، اور نكاح كا مقصد سكون اور ازدواجى تعلقات ہوتا ہے، اور جب عقد نكاح سے ہى عورت مرد كے ساتھ رہنا ناپسند كرتى ہو اور اس سے عليحدگى چاہتى ہو تو يہ عقد نكاح اس مقصد كےتحت نہيں ہوا جس سے نكاح كا مقصود حاصل ہوتا ہے.

اور پھر يہ بھى كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ان دونوں پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ آپس ميں رجوع كر ليں اگر گمان كريں كہ وہ اللہ كى حدود كو قائم ركھيں گے .

تو يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے نكاح يہاں اس ليے مباح كيا كہ اگر ان كے گمان ميں ہو كہ وہ اللہ كى حدود كو قائم ركھيں گے، اور اس طرح كى عورت تو يہ گمان نہيں ركھتى ہے كہ وہ اللہ كى حدود كو قائم ركھ سكتى ہے؛ كيونكہ اس كا خاوند كو ناپسند كرنا اس گمان كو روكتا ہے، اور اس ليے بھى كہ عورت نكاح كے ساتھ خاوند كے فوائد كو پورا كرتى ہے جس طرح خاوند بيوى كے فوائد اور نفع كو پورا كرتا ہے.

اور اگر عورت نے صرف اس ليے شادى كى ہو كہ وہ اس شخص سے عليحدگى حاصل كر كے پہلے خاوند كى طرف واپس چلى جائے، اس ليے نہيں كہ وہ اس خاوند كے پاس ہى رہےگى تو اس نے نہ تو اس سے نكاح كا ارادہ كيا ہے اور نہ ہى وہ اسے چاہتى ہے، اس ليے ابطال الحيل والے قاعدہ اوراصول كے تحت يہ نكاح صحيح نہيں " انتہى

ماخوذ از: الفتاوى الكبرى ( 6 / 298 ).

ان اسباب كى بنا پر جو شيخ الاسلام نے بيان كيے ہيں حنابلہ علماء كى ايك جماعت نے يہ اختيار كيا ہے كہ اگر عورت نے حيلہ سازى كى ہو تو وہ پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہو گى.

مطالب اولى النھى ميں درج ہے:

" جس كے ہاتھ ميں تفريق اور عليحدگى نہيں اس كى نيت كا كوئى اثر نہيں .....

اور بيوى اور ولى كى نيت كا كوئى اثر نہيں؛ كيونكہ عليحدگى اور تفريق ان كے ہاتھ ميں نہيں ہے.

اعلام الموقعين ميں ہے: اس كى تائيد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان سے ہوتى ہے:

" كيا تم رفاعہ كى طرف واپس لوٹنا چاہتى ہو "

امام احمد كہتے ہيں: اس عورت نے حلال ہونے كى كوشش كى تھى، اور عورت كى نيت كچھ شمار نہيں ہوگى، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو فرمايا ہے:

" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلال كرنے والے پر لعنت كرے "

اور اس ميں عورت كچھ نہيں ہے.

ہمارے اصحاب ميں سے بہت ساروں نے يہ اختيار كيا ہے كہ اس طرح وہ حلال نہيں ہو گى، اور صحيح بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 127 ).

مزيد آپ المغنى ( 7 / 139 ) اور كشاف القناع ( 5 / 96 ) اور حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 258 ) اور اعلام الموقعين ( 4 / 36 ) كا بھى مطالعہ كريں.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر بيوى اس كى نيت كرے تو كيا ہوگا، يہ عورت دوسرے شخص سے اس ليے شادى پر موافقت كرلے كہ وہ پہلے خاوند كے ليے حلال ہو جائے ؟

تو مؤلف كى كلام كا ظاہر يہى ہے كہ بيوى كى نيت كا اس ميں كوئى اثر نہيں، اس كى وجہ يہ ہے كہ: اس عورت كے ہاتھ ميں تو كچھ نہيں، اور دوسرا خاوند اسے طلاق نہيں ديگا؛ كيونكہ اس نے تو اس عورت كے ساتھ رغبت كا نكاح كيا ہے، اور اس كے خيال ميں بھى يہ نہ تھا، اور اگر وہ عورت نيت نہ كرے ليكن اس عورت كا ولى بھى اس كى نيت كرے تو بھى يہى ہوگا.

اس ليے بعض فقھاء نے ايك عبارت كہى ہے جو قاعدہ شمار ہوتا ہے:

" جس كے ہاتھ ميں تفريق اور عليحدگى نہ ہو اس كى نيت كا كوئى اثر نہيں "

اس بنا پر عورت اور اس كے ولى كى نيت كا اس ميں كوئى اثر نہيں ہوگا؛ كيونكہ عليحدگى ان كے ہاتھ ميں نہيں ہے.

اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ عورت اور اس كے ولى كى نيت خاوند كى نيت كى طرح ہى ہے، اور يہ مذہب كے خلاف ہے انہوں نے يہ تسليم كيا ہے كہ ان دونوں كے ہاتھ ميں عليحدگى نہيں ليكن ان كا كہنا ہے: ان دونوں كے ليے ممكن ہے كہ وہ نكاح فاسد كرنے كى كوشش كريں، وہ اس طرح كہ بيوى خاوند كو غلط كہے حتى كہ وہ اسے طلاق دے دے، يا پھر وہ اسے رقم كا لالچ ديں، اور پھر نكاح تو خاوند اور بيوى كے مابين معاہدہ ہے لہذا اگر خاوند كى نيت مؤثر ہوگى تو بيوى كى نيت بھى مؤثر ہوگى.

ہمارے نزديك تينوں: يعنى خاوند اور بيوى اور ولى ميں سے جس كى نيت مؤثر ہوگى وہ مذہب اور راجح قول كے مطابق خاوند ہے، جو نيت بھى تينوں ميں سے ايك كرے تو وہ عقد نكاح كو باطل كر دےگى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے "

اور جب ولى كى عقد نكاح كے وقت مستقل نكاح كى نيت نہ تھى اور اسى طرح بيوى كى بھى مستقل نكاح كى نيت نہ تھى تو يہ نكاح باطل ہوا.

اور اگر قائل يہ كہے كہ: رفاعہ قرظى كى بيوى نے عبد الرحمن بن زبير رضى اللہ تعالى عنہ سے شادى كى تھى اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر شكايت كرنے لگى كہ اس كے پاس تو ايسا ہے جيسے كپڑا كا ٹكڑا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" كيا تم رفاعہ كے پاس واپس جانا چاہتى ہو "

تو اس نےعرض كيا: جى ہاں "

كيا يہ اس كى دليل نہيں كہ بيوى كى نيت مؤثر نہيں ہوتى ؟

ہم يہ كہيں گے كہ: آيا يہ ارادہ عقد نكاح سے قبل تھا يا كہ جب بيوى نے اپنے دوسرے خاوند ميں يہ عيب ديكھا تو پھر يہ ارادہ پيدا ہوا ؟

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ ارادہ عيب ديكھنے كے بعد ہوا تھا؛ كيونكہ آدمى اس سے شادى كرے اور اس سے دخول كرے اور اس عورت كے پاس كوئى مانع نہ تھان پھر وہ آ كر شكايت كرنے لگى، تو حالت سے ظاہر ہے كہ اگر وہ يہ عيب اور علت نہ پاتى تو آ كر شكايت نہ كرتى, واللہ اعلم.

اور اگرچہ اس حديث ميں احتمال ہے " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 177 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب