ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

نفاس والی خاتون غسل کب کرے؟

سوال

میری اہلیہ کے ہاں زچگی کو ایک ہفتہ ہو گیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ ان کے غسل کرنے کے وقت کے متعلق معلومات لوں؛ کیونکہ ہمارے ہاں ایک رسم ہے کہ مخصوص دن گزرنے پر ہی غسل کرنے دیا جاتا ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا اس رسم کا شریعت سے بھی کوئی تعلق ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت کے ہاں زچگی ہو تو اس کے بعد جاری ہونے والے خون کو نفاس کہتے ہیں، اور ایسی عورت کو نفاس والی کہا جاتا ہے، چنانچہ نفاس کا خون جاری ہوتے ہی عورت نماز اور روزہ ترک کر دے گی اور خاوند بھی جسمانی تعلقات قائم نہیں کر سکتا تا آنکہ نفاس سے پاک ہو جائے یا نفاس کے ایام ختم ہو جائیں جو کہ 40 دن ہوتے ہیں، اس کے بعد غسل کرے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صاحب علم صحابہ کرام اور تابعین سمیت بعد میں آنے والے تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ نفاس والی خواتین 40 دن تک نماز ادا نہیں کریں گی، البتہ اگر اس سے پہلے طہر آ جائے تو پھر غسل کر کے نماز ادا کریں گی، چنانچہ اگر 40 دن کے بعد بھی خون دیکھے تو اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ وہ 40 دن گزرنے کے بعد نماز ترک نہیں کر سکتی۔ یہی موقف اکثر فقہائے کرام کا ہے اور اسی موقف کے امام سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق رحمہم اللہ جمیعاً قائل ہیں۔" ختم شد
"سنن ترمذی" (1/256)

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (5/417)میں ہے:
"اگر نفاس والی عورت 40 دن پورے ہونے سے پہلے پاک ہو جائے تو وہ غسل کر کے نماز پڑھے اور روزے بھی رکھے، اس کا خاوند جسمانی تعلقات بھی بنا سکتا ہے، لیکن اگر 40 دن گزرنے کے بعد بھی خون جاری رہے تو پھر وہ عورت اپنے آپ کو پاک سمجھے؛ کیونکہ علمائے کرام کے 2 اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق 40 دن نفاس کی انتہائی مدت ہے، اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ کے حکم میں ہو گا، الا کہ اگر نفاس کے فوری بعد حیض کے دن بھی شروع ہو جائے تو پھر وہ حائضہ کے حکم میں ہو گی اور نماز روزہ چھوڑ دے گی، اور اس کے خاوند کے لیے جسمانی تعلقات بنانا بھی حرام ہو گا۔" ختم شد

تو اس سے واضح ہوا کہ نفاس والی خاتون اسی وقت غسل کرے گی جب نفاس کا خون بند ہو جائے اور یہ غسل واجب ہے۔

لیکن اگر کسی علاقے میں یہ بات مشہور ہو جائے کہ نفاس والی خاتون مخصوص دنوں کے بعد ہی غسل کرے ، اور اس کا مطلب یہ لیتے ہوں کہ اتنی مدت کے بعد وہ روٹین کی زندگی گزارے اور صاف ستھری ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس پر شرعی احکام اس طرح سے لاگو نہیں ہو ں گے جیسے نفاس والی کے متعلق ہوتے ہیں؛ کیونکہ نفاس والی عورت نماز نہیں پڑھتی ، نہ ہی خاوند ہم بستری کر سکتا ہے تاآنکہ نفاس سے پاک ہو جائے اور غسل کر لے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب