جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

مجنون بچے كى پرورش كا ماں كو زيادہ حق ہے جب تك ماں آگے شادى نہ كرے چاہے بچہ بڑا ہى ہو

128654

تاریخ اشاعت : 27-06-2010

مشاہدات : 5553

سوال

مجھے تقريبا دو برس قبل طلاق ہوئى اور ميرے تين بچے بھى ہيں، بڑا بچہ انيس برس كا ہے اور دوسرى بچى كى عمر سترہ برس ہے، اور تيسرا بچہ سولہ برس كا ہے، بہر حال اللہ كا شكر ہے بڑا بچہ اور بچى عقلى طور پر كمزور ہيں، ميں نے اپنى زندگى ان كى خدمت كرتے ہوئے گزارى ہے اور اب تك كر رہى ہوں، ان بچوں كے ليے حكومت كى جانب سے مالى معاونت ملتى ہے جس كا معنى يہ ہے كہ الحمد للہ مالى طور پر انہيں كوئى مشكل نہيں.
اب جبكہ مجھے طلاق ہو چكى ہے بچے اپنے باپ كے پاس رہتے ہيں اور مہينہ ميں صرف دس دن ميرے پاس آ كر رہتے ہيں باقى ايام ميں ان كے والد كے گھر جا كر ان كى ديكھ بھال كرتى ہوں جبكہ ان كا والد اپنے كام پر گيا ہوتا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا مجھے ان كى پرورش اور انہيں گود لينے اور ان كى كفالت كا حق حاصل ہے، اور وہ مستقل طور پر ميرے پاس ہى رہيں ؟
اور اگر ميں دوسرى شادى كر ليتى ہوں تو پھر كيا حكم ہو گا، مجھے علم ہے كہ اگر ماں اور شادى كر لے تو پھر پرورش كا حق باپ كو مل جاتا ہے، ليكن يہ اپاہچ ہيں اور صرف ميں ہى ان كى اچھى طرح ديكھ بھال كر سكتى ہوں، كيا اس حالت ميں مجھے حق حاصل ہے كہ وہ ميرے پاس رہيں، اور كيا ميرے ليے ان كے كچھ مال ميں تصرف كا حق حاصل ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حضانہ يا پرورش كا مقصود بچے كى ديكھ بھال اور اس كى مصلحت كو پورا كرنا ہے.

اور محضون: وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے امور كى خود ديكھ بھال نہ كر سكتا ہو اور امتياز نہ ہونے كى وجہ سے اذيت و تكليف سے اپنے آپ كو نہ بچا سكے مثلا بچہ يا عمر رسيدہ شخص يا مجنون پاگل اور عقلى طور پر كمزور شخص.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

فقھاء كا اتفاق ہے كہ چھوٹے بچے كى حق ميں پرورش ثابت ہے، اور جمہور فقھاء احناف، شافعيہ، اور حنابلہ كے ہاں اور مالكيہ كے ايك قول كے مطابق پاگل و مجنون اور كم عقل كے ليے بھى يہى حكم ہے " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 301 ).

اور الحجاوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

پرورش كے متعلق باب:

" چھوٹے بچے اور پاگل و مجنون اور ذہنى طور پر ماؤف كى حفاظت كے ليے پرورش كا حق واجب ہے " انتہى

ديكھيں: زاد المستقنع ( 206 ).

اور ماں كو اپنے چھوٹے بچے اور پاگل كى پرورش كرنے كا حق باپ سے زيادہ ہے.

المرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

بغير كسى نزاع و اختلاف كے بچے اور مجنون كى پرورش كى ماں زيادہ حقدار ہے " انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 9 / 416 ).

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بچے كو اختيار ديا جائيگا ( يعنى بچہ جب سات برس كا ہو جائے تو اسے والدين ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كا حق ديا جائيگا ) اس ميں دو شرط:

پہلى شرط: دونوں ہى پرورش كرنے والوں ميں شامل ہوتے ہوں، اور اگر ان ميں كوئى ايك پرورش كرنے كى اہليت نہيں ركھتا مثلا معدوم كى طرح تو دوسرے كو متعين كيا جائيگا.

دوسرى شرط:

بچہ مجنون و پاگل نہ ہو، اور اگر وہ مجنون و اپاہچ ہے تو ماں كے پاس ہو گا اور بچے كو اختيار نہيں ديا جائيگا؛ كيونكہ مجنون اور اپاہچ چھوٹے بچے كى طرح ہى ہے چاہے وہ بڑا ہى ہو اس ليے مجنون كى بلوغت كے بعد بھى كفالت و پرورش كى حقدار اس كى ماں ہى ہے.

اور اگر بچے كو اختيار ديا جائے اور وہ اپنے والد كو اختيار كر لے اور پھر اس كى عقل جاتى رہے تو بچہ ماں كى طرف واپس كر ديا جائيگا، اور اس كا اختيار باطل ہو جائيگا؛ كيونكہ اسے اختيار اس وقت ديا گيا تھا جب وہ اپنے آپ كو سنبھال سكتا تھا، ليكن جب وہ اپنے آپ كو نہيں سنبھال سكتا اور امور كو كنٹرول نہيں كر سكتا تو ماں زيادہ حقدار ہے؛ كيونكہ ماں اس كے ليے زيادہ شفقت كرنے والى ہے، اور اس كى زيادہ ديكھ بھال كر سكتى ہے جس طرح وہ بچپن ميں كرتى رہى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 192 ).

اس بنا پر آپ اپنے خاوند سے عقلى طور پر مريض بچوں كى پرورش كا اس وقت تك زيادہ حق ركھتى ہيں جب تك شادى نہ كر ليں، ليكن جب آپ شادى كر ليں تو پھر باپ اپنے بچوں كى پرورش كا زيادہ حقدار ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب ماں شادى كر لے تو اس كى پرورش كا حق ساقط ہو جاتا ہے، ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميں نے جن اہل علم سے علم حاصل كيا ہے ان سب كا اس پر اجماع ہے كيونكہ رسول كريم صلى نے ايك عورت كو فرمايا:

" تم اس كى زيادہ حقدار ہو جب تك نكاح نہ كر لو "

اور اس ليے كہ جب عورت شادى كر ليتى ہے تو پھر وہ پرورش كى بجائے خاوند كے حقوق پورے كرنے ميں مشغول ہو جاتى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 8 / 194 ).

جب شادى كرنے سے ماں كا حق پرورش ساقط ہو جاتا ہے تو پھر يہ اس كو منتقل ہو گا جو ماں كے بعد ہے، اور ماں كے بعد كون زيادہ حقدار ہو گا اس كى تعيين ميں فقھاء كا اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن صحيح يہى ہے كہ ماں كے بعد باپ اپنے بچوں كى پرورش كا زيادہ حقدار ہے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے ہى راجح قرار ديا ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 535 ).

اس سب كچھ سے قبل پرورش كے مقاصد كا خيال كرنا چاہيے اور وہ يہ كہ جس كى پرورش كى جا رہى ہے اس كے امور كو سرانجام ديا جائے اور اس كى حفاظت كى جائے اور اس كى ديكھ بھال كى جائے اور خيال ركھا جائے، اور اگر باپ اپنى اولاد كو ضائع كرنے كا باعث بنے اور اولاد كا اپنى ماں كے ساتھ رہنا زيادہ بہتر اور اچھا ہو تو وہ اپنى ماں كے ساتھ رہيں گے.

ليكن اس سلسلہ ميں فيصلہ شرعى قاضى كريگا، اور جب آپ كے ملك ميں شرعى عدالتيں نہيں تو آپ كے سامنے ايك ہى حل رہ جاتا ہے كہ آپ بچوں كے باپ كے ساتھ اس پر اتفاق كر ليں، يا پھر آپ اپنے شہر كے اسلامك سينٹر ميں معاملہ پيش كريں جو اس مسئلہ كو حل كرنے كى كوشش كريں.

دوم:

رہا يہ كہ آپ كے ليے بچوں كو ملنے والى رقم اور مال ميں تصرف كرنے كا حق ہے يا نہيں تو اس سلسہ ميں گزارش ہے كہ اگر آپ محتاج و ضرورتمند ہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں ليكن اگر آپ كو اپنا مال كافى ہے اور بچوں كے مال كى آپ كو ضرورت نہيں، تو بہتر يہى ہے كہ آپ ان كا مال استعمال كرنے سے اجتناب كريں.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے يتيم كے ولى كے ليے يتيم كا مال كھانے كے متعلق فرمايا ہے:

اور جو كوئى مالدار ہو تو وہ اس سے بچے، اور جو كوئى فقير و محتاج ہے تو وہ دستور كے مطابق واجبى طور پر كھائے النساء ( 6 ).

اور اس ليے كہ جب آپ فقير و محتاج ہوں تو آپ كا خرچہ ان كے مال ميں ان پر واجب ہوتا ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب