جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

رخصتى كے بعد خاوند نے طلاق دے دى ليكن عورت ابھى تك كنوارى ہے كيا اس كى عدت ہو گى ؟

120018

تاریخ اشاعت : 15-11-2013

مشاہدات : 4138

سوال

ايك شخص كے ساتھ ايك برس تك عقد نكاح رہا اور سال بعد رخصتى ہوئى تو ميں اس شخص كے ساتھ ايك ہفتہ تك رہى، اس نے مجھے طلاق دے دى ليكن ميں ابھى تك كنوارى ہوں، مجھے علم ہوا كہ ميرى كوئى عدت نہيں، اور اب طلاق كو بھى پانچ برس ہو چكے ہيں ابھى تك ميرى شادى نہيں ہوئى، اب سنا ہے كہ مجھے عدت ضرور گزارنا ہو گى كيا يہ بات صحيح ہے، برائے مہربانى ميرے معاملہ كے بارہ ميں تفصيلى معلومات فراہم كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اہل علم اس پر متفق ہيں كہ عدت اسى صورت ميں ہو گى جب خاوند اپنى بيوى سے وطئي يعنى ہم بسترى اور مجامعت كرے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو اور انہيں چھونے ( جماع كرنے ) سے قبل ہى طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جسے تم شمار كرو الاحزاب ( 49 ).

فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ اس آيت ميں چھونے سے مراد جماع ہے اور بطور كنايہ چھونا كہا گيا ہے.

اسى آيت كى بنا پر فقھاء اس پر بھى متفق ہيں كہ اگر كوئى شخص عقد نكاح كے بعد اس سے خلوت اور دخول كرنے سے قبل اسے طلاق دے دے تو بھى كوئى عدت نہيں ہوگى.

ابو بكر ابن العربى رحمہ اللہ " احكام القرآن " ميں رقمطراز ہيں:

" يہ آيت نص ہے كہ دخول سے قبل طلاق دى جائے تو كوئى عدت نہيں ہوگى، اور اسى آيت كى بنا پر امت كا اس پر اجماع ہے، اور اس پر بھى اجماع ہے كہ اگر خاوند نے بيوى سے جماع كر ليا تو اس پر عدت ہو گى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يہ طلاق ( رجعى ) دو بار ہے، پھر يا تو اچھے طريقہ سے ركھ لينا ہے، يا نيكى كے ساتھ چھوڑ دينا ہےالبقرۃ ( 229 ).

اور اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم عورتوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے وقت طلاق دو اور عدت شمار كرو الطلاق ( 1 ). انتہى

اس ميں اہل علم كا اختلاف ہے كہ اگر كوئى شخص بيوى سے خلوت كر كے طلاق دے تو جمہور فقھاء احناف مالكيہ اور حنابلہ كہتے ہيں كہ اسے عدت گزارنا ہوگى؛ كيونكہ خلوت دخول كے قائم مقام ٹھرتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم كے مابين اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ چھونے يعنى مباشرت كے بعد طلاق دينے سے عدت واجب ہوتى ہے؛ ليكن اگر كسى شخص نے خلوت تو كي ليكن اس سے ہم بسترى نہيں كى اور طلاق دے دى تو امام احمد رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے كہ اس پر عدت واجب ہوگى، اور خلفاء راشدين اور زيد اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ بھى يہى مروى ہے، اور عروۃ على بن حسين اور عطاء اور زہرى اور ثورى اور اسحاق اور اصحاب الرائے كا بھى يہى قول ہے، اور شافعيہ كا بھى ايك قديم قول يہى ہے.

اس كى دليل صحابہ كرام كا اجماع ہے؛ جسے امام احمد رحمہ اللہ اور اثرم نے اپنى سند كے ساتھ زرارۃ بن اوفى سے روايت كيا ہے كہ:

" خلفاء راشدين كا يہ فيصلہ ہے كہ جس نے بھى پردہ گرا ليا، يا دروازہ بند كر ليا تو مہر واجب ہو جائيگا، اور عدت واجب ہو جائيگى "

اور اثرم نے احنف سے بھى درج ذيل روايت بيان كى ہے:

عن عمر و على و عن سعيد بن المسيب عن عمر و زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہم "

يہ فيصلے مشہور ہيں اور كسى نے بھى اس كا انكار نہيں كيا اس طرح يہ اجماع بن گيا، امام احمد رحمہ اللہ نے اس كے خلاف روايت كو ضعيف قرار ديا ہے " انتہى بتصرف و اختصار

ديكھيں: المغنى ( 8 / 80 ).

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

حنفيہ مالكيہ اور حنابلہ كہتے ہيں كہ صحيح نكاح كى صورت ميں صحيح خلوت ہو جائے تو طلاق كى صورت ميں عدت واجب ہو گى....

اور مالكيہ كے ہاں صحيح خلوت كى حالت ميں عدت واجب ہو جائيگى چاہے خاوند اور بيوى وطئي سے انكار بھى كرتے ہوں؛ كيونكہ عدت تو اللہ سبحانہ و تعالى كا حق ہے، اور يہ حق ان دونوں كے وطئ كے انكار سے ساقط نہيں ہوگا " انتہى مختصرا

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 273 ).

اس بنا پر آپ كا رخصتى كے بعد اپنے خاوند كے پاس دو ہفتے تك رہنا جمہور علماء كرام كے ہاں يقينى خلوت كا باعث ہے اور اس سے عدت واجب ہوگى، اور آپ نے عدت بسر نہ كر كے غلطى كا ارتكاب كيا ہے، اب عدت فوت ہو جانے كى بنا پر آپ كے ذمہ كچھ لازم نہيں آتا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" ليكن اگر عورت نے جہالت كى بنا پر عدت ترك كر دى يا عدت بسر ہى نہ كى تو اس پر كوئى چيز لازم نہيں آئيگى، اور عدت كا عرصہ ختم ہونے پر عدت ختم ہو جائيگى " انتہى

ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 77 / 21 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب