جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

مسجد ميں نماز باجماعت كا حكم

سوال

مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنے كا حكم كيا ہے، اور اس كى دليل كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز باجماعت كے دلائل:

پہلى دليل:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو آپ كے ساتھ ايك گروہ نماز ادا كرے، اور چاہيے كہ وہ اپنا اسلحہ ساتھ ركھيں، اور جب وہ سجدہ كر ليں تو وہ ہٹ كر تمہارے پيچھے آ جائيں، اور پھر وہ گروہ آئے جس نے نماز ادا نہيں كى تو وہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے النساء ( 102 ).

وجہ استدلال:

پہلى وجہ:

اللہ سبحانہ وتعالى نے انہيں نماز باجماعت ادا كرنے كا حكم ديا، اور پھر دوسرے گروہ كو يہى حكم ديتے ہوئے فرمايا:

اور پھر وہ گروہ آئے جس نے نماز ادا نہيں كى تو وہ آپ كے ساتھ نماز ادا كرے

اس ميں نماز باجماعت فرض عين ہونے كى دليل ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے پہلے گروہ كى نماز باجماعت كى ادائيگى سے دوسرے گروہ كى نماز باجماعت ادا كرنا ساقط نہيں كى.

اور اگر نماز باجماعت سنت ہوتى تو اس كے ساقط ہونے والے عذروں ميں خوف كا عذر سب سے زيادہ اولى تھا، اور اگر يہ فرض كفايہ ہوتى تو پہلے گروہ كى ادائيگى سے دوسرے گروہ سے ساقط ہو جاتى.

لہذا اس آيت ميں نماز باجماعت فرض عين ہونے كى دليل پائى جاتى ہے.

اس كى تين وجوہات ہيں:

ـ اللہ سبحانہ وتعالى نے پہلے اس كا حكم ديا.

ـ پھر يہى حكم دوبارہ ديا.

ـ خوف اور جنگ كى حالت ميں بھى اسے ترك كرنے كى رخصت نہيں دى.

چوتھى دليل:

1 - صحيحين ميں ـ اور يہ الفاظ بخارى كے ہيں ـ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، ميں نے ارادہ كيا كہ ايندھن جمع كرنے كا حكم دوں اور وہ جمع ہو جائے تو پھر ميں نماز كے ليے اذان كا حكم دوں اور پھر كسى شخص كو لوگوں كى امامت كرانے كا حكم دوں اور پھر ميں ان مردوں كے پيچھے جاؤں اور انہيں گھروں سميت جلا ڈالوں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، اگر كسى كو معلوم ہو جائے كہ اسے موٹى سے گوشت والى ہڈى حاصل ہو گى، يا پھر اسے اچھے سے دو پائے كے كھر حاصل ہونگے تو وہ عشاء كى نماز ميں حاضر ہوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7224 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 651 ).

2 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" منافقين كے ليے سب سے بھارى عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ( اجروثواب ) ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں چاہے گھسٹ كر آئيں، اور ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں پھر ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر اپنے ساتھ كچھ آدمى ليكر جاؤں جن كے ساتھ لكڑيوں كا ايندھن ہو اور جو لوگ نماز كے ليے نہيں آئے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں " متفق عليہ.

3 - امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے روايت كى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر گھروں ميں عورتيں اور اولاد نہ ہوتى تو ميں عشاء كى نماز كھڑى كرتا، اور اپنے نوجوانوں كو حكم ديتا كہ جو گھروں ميں ہيں انہيں جلا كر راكھ كر دو "

4 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ارادہ كو عملى جامہ اس ليے نہيں پہنايا كہ اس ميں وہ مانع موجو تھا جس كى انہوں نے خبر بھى دى، وہ يہ كہ گھروں ميں وہ افراد بھى ہيں يعنى عورتيں اور بچے جن پر نماز باجماعت فرض نہيں، اور اگر وہ ان گھروں كو جلا كر راكھ كر ديتے تو سزا ايسے افراد كو بھى مل جاتى جن پر نماز باجماعت واجب نہ تھى.

پانچويں دليل:

اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" ايك نابينا شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے مسجد تك لانے كے ليے كوئى شخص نہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت دے دى، اور جب وہ جانے كے ليے پلٹا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بلايا اور فرمانے لگے:

كيا تم نماز كے ليے اذان سنتے ہو ؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر آيا كرو "

يہ نابينا صحابى ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ تھے.

اور مسند احمد اور سنن ابو داود ميں عمرو بن ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نابينا ہوں، ميرا گھر دور ہے، اور مجھے لانے والا ميرى موافقت نہيں كرتا، كيا آپ مجھے گھر ميں نماز ادا كرنے كى رخصت ديتے ہيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تم اذان سنتے ہو؟ تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں تيرے ليے رخصت نہيں پاتا "

مطلق امر وجوب كے ليے ہے، تو پھر جب شارع اس كى صراحت كرتے ہوئے يہ كہہ ديں كہ نابينا اور دور گھر والا شخص جسے لانے والا بھى اس كے موافق نہ ہو كو بھى رخصت نہيں ہے، تو كيا حكم ہو گا.

اگر بندے كو اكيلے يا نماز باجماعت ادا كرنے كا اختيار ہوتا تو پھر اس طرح كا نابينا شخص اختيار كا زيادہ حقدار تھا.

چھٹى دليل:

ابو داود، ابو حاتم، اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے اذان سنى اور اس قبول كرنے ميں كسى عذر نہ روكا، ان سے عرض كيا گيا عذر كيا ہے ؟ تو انہوں نے جواب ديا: خوف يا بيمارى ، تو اس كى ادا كردہ نماز قبول نہيں ہو گى "

ساتويں دليل:

ابن مسعود رضى اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جسے يہ بات اچھى لگتى ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے يہ نمازيں وہاں ادا كرنے كا التزام كرنا چاہيے جہاں اذان ہوتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے تمہارى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سنن الھدى مشروع كيں، اور يہ سنن الھدى ميں سے ہيں، اگر اپنے گھر ميں پيچھے رہنے والے شخص كى طرح تم بھى اپنے گھروں ميں نماز ادا كرو تو تم نے اپنے نبى كى سنت كو ترك كر ديا، اور اگر تم اپنے نبى كى سنت ترك كرو گے تو تم گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص بھى اچھى طرح وضوء كر كے ان مساجد ميں سے كسى ايك مسجد جائے تو ہر قدم كے بدلے اللہ تعالى ايك نيكى لكھتا اور ايك درجہ بلند كرتا، اور اس كى بنا پر ايك برائى كو مٹاتا ہے، ہم نے ديكھا كہ منافق جس كا نفاق معلوم ہوتا وہى اس سے پيچھے رہتا، ايك شخص كو لايا جاتا اور وہ دو آدميوں كے درميان سہارا لے كر آتا اور اسے صف ميں كھڑا كر ديا جاتا )

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:

اور انہوں نے عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں سنن الھدى سكھائيں اور سنن ہدى ميں سے يہ ہے كہ جس مسجد ميں اذان ہو وہاں نماز باجماعت ادا كى جائے "

وجہ دلالت:

انہوں نے نماز باجماعت سے پيچھے رہنا ان مفافقين كى علامت بتائى جن كا نفاق معلوم ہو.

اللہ تعالى سے دعاء ہے كہ وہ اپنے ذكر و شكر اور اپنى حسن عبادت ميں ہمارى مدد و تعاون فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد