منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

مسلسل حمل کے ڈر سے چالیس دن سے قبل اسقاط ِحمل کا حکم

سوال

ایک عورت کو اپنے چار ماہ کے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے یہ علم ہوا کہ وہ دوسرے یا تیسرے ہفتے کی حاملہ ہے، تو کیا چارہ ماہ کے اندر اندر دوبارہ حمل ہونے کی وجہ سےلاحق ہونے والے اندیشے کے باعث اسقاط حمل کروانا جائز ہے؟ مزید برآں کہ ابھی اسکا نومولود بچہ دودھ پلانے کی مدت میں ہے؛ اور حمل کی وجہ سےوہ  اپنے بچے کو دودھ بھی نہیں پلا سکے گی۔.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقہائے کرام کا چالیس دن سے پہلے  اسقاط حمل کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں، چنانچہ  متعدد حنفی اور  شافعی فقہائے کرام کے ساتھ ساتھ حنبلی  فقہاء اسے جائز کہتے ہیں۔

جیسا کہ ابن ہمام رحمہ اللہ  "فتح القدير" (3/401) میں کہتے ہیں:
"حمل ٹھہرنے کے بعد ساقط کرنا جائز ہے؟  جائز ہے، بشرطیکہ انسانی تخلیق شروع نہ ہو، مزید برآں دیگر کئی مواقع پر [حنفی فقہاء کا ] کہنا ہے کہ: تخلیق 120 دن گزرنے کے بعد ہی  شروع ہوتی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقہاء نے "تخلیق" سے  روح پھونکنا مراد  لیا ہے، وگرنہ 120 دنوں کے بارے میں انکی یہ بات  غلط ہوگی؛ کیونکہ حمل میں 120 دنوں سے قبل ہی  انسانی اعضاء کی نشوو نما شروع ہوجاتی ہے" انتہی

اسی طرح رملی رحمہ اللہ "نہایۃ المحتاج" (8/443) میں کہتے ہیں:
"راجح موقف کے مطابق روح پھونکے جانے کے بعد  کسی طور سے بھی اسقاط حمل حرام ہے،  لیکن روح پھونکے جانے سے قبل جائز ہے" انتہی

اور اسی طرح:" حاشیہ قليوبی "(4/160) میں ہے کہ:
"روح پھونکے جانے سے قبل اسقاط حمل کسی دوا وغیرہ کے ذریعے کرنا بھی جائز ہے، لیکن غزالی کی رائے اس کے خلاف ہے" انتہی

مرداوی رحمہ اللہ "الإنصاف" (1/386) میں کہتے ہیں:
"نطفہ ساقط کرنے کیلئے دوا کا استعمال کرنا جائز ہے، "الوجیز"[حنبلی فقہ کی کتاب] میں یہی بات مذکور ہے، اور "الفروع" میں بھی اسی کو  بیان کیا گیا ہے، البتہ ابن الجوزی نے "احکام النساء" میں کہا ہے کہ: "یہ عمل حرام ہے" ، جبکہ "الفروع" میں ہے کہ : کتاب "الفنون" میں ابن عقیل کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ: "روح پھونکنے سے قبل  اسقاط حمل جائز ہے"، اسے ذکر کرنے کے بعد  انہوں نے کہا: "یہ بات بھی کسی اعتبار سے درست معلوم ہوتی ہے" انتہی

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ "جامع العلوم والحكم" میں کہتے ہیں کہ:
"رفاعہ بن رافع  سے نقل کیا گیا ہے کہ : میرے پاس عمر، علی، زبیر، اور سعد سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جمع ہوئے، اور "عزل" [جماع کے دوران انزال باہر کرنا]کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو سب نے کہا : "اس میں کوئی حرج نہیں ہے"، اس پر ایک آدمی نے کہا کہ: "کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زندہ درگور کرنے کی چھوٹی صورت ہے"، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا:"زندہ درگوری اس وقت شمار ہو گی جب سات مراحل گزرچکےہوں ، سب سے پہلے مٹی کا سلالہ [جوہر] ، پھر اس سے نطفہ، پھر علقہ[لوتھڑا]، پھر مضغہ [چبایا ہوا]، پھر ہڈیاں، پھر گوشت، اور پھر باقی اعضاء کی تخلیق  " اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:  "تم سچ کہتے ہو، اللہ تعالی آپکو لمبی زندگی دے" اس روایت کو  دارقطنی نے "المؤتلف و المختلف" میں نقل کیا ہے۔

پھر اس کے بعد ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارے فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جب نطفہ لوتھڑا بن جائے تو عورت کیلئے اسقاطِ حمل کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ  یہ نطفہ اب بچے کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگیا ہے، تاہم نطفہ  کے مرحلہ میں اسقاطِ حمل جائز ہے، اس لئے کہ ابھی بچے کی صورت شروع نہیں ہوئی، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نطفہ بچے کی شکل اختیار ہی نہ کرے" انتہی
[کیونکہ نطفہ سے اگر لوتھڑا بن جائے تو بچے کی نشوونما  ہوتی ہے، اور اگر نطفہ کی شکل میں ہی رہے تو بچہ کی نشوو نما نہیں ہوتی۔مترجم]

جبکہ تمام مالکی فقہاء مطلق طور پر  اسے منع قرار دیتے ہیں، یہی موقف کچھ حنفی، شافعی، اور حنبلی فقہائے کرام کا ہے۔

چنانچہ دردیر رحمہ اللہ "الشرح الكبیر" (2/266) میں کہتے ہیں:
"رحم میں موجود منی کو چالیس دن سے پہلے خارج کروانا  جائز نہیں ہے، اور اگر روح پھونک دی جائے تو اجماعی طور پر حرام ہوگا" انتہی

تاہم کچھ  فقہائے کرام نے اس عمل کو جائز قرار دینے کیلئے عذر کی شرط لگائی ہے، اس کی تفصیلات کیلئے دیکھیں: "الموسوعة الفقهية الكويتية" (2/57)

سپریم علماء کونسل  کے اجلاس میں منظور شدہ قرار داد میں ہے کہ:

1- حمل کے کسی بھی مرحلہ میں  اسقاط حمل جائز نہیں ہے، البتہ کسی شرعی عذر  کی بنا پر انتہائی  سنگین اور دشواری کی حالت میں اس کی اجازت ہے۔

2-  اگر حمل کا ابھی پہلا مرحلہ  یعنی ابتدائی چالیس دن  کی مدت میں ہو تو شرعی مصلحت، یا بڑے نقصان سے بچنے کیلئے ساقط کرنا جائز  ہے، تاہم اس مدت میں صرف اس وجہ سے حمل ساقط کرنا کہ  بچوں کی پرورش میں مشقت ہو گی، یا انکی تعلیم و تربیت کے خرچے  برداشت نہیں ہوں گے، یا اس لئے ساقط کرنا کہ جتنے بچے  موجود ہیں یہی کافی ہیں،  تو یہ درست نہیں ہے" انتہی
"الفتاوى الجامعہ" (3/1055)

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (21/450) میں ہے:
"اصل یہی ہے کہ کسی بھی مرحلے میں شرعی عذر کے بغیر اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے، تاہم اگر حمل ابھی تک نطفہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہے، اور کسی شرعی مصلحت یا ماں کو حمل کی وجہ سے نقصان کا خدشہ ہے تو اسقاطِ حمل  جائز ہوگا، لیکن اس  میں بچوں کی پرورش، ان  کے خرچے، اور تعلیم و تربیت کے لئے درکار مشقت  کی وجہ سےاسقاطِ حمل درست نہیں  ہے، اسی طرح معین تعداد میں بچوں پر اکتفاء کرنا بھی  غیر شرعی  عذر شمار ہوتا ہے۔

اور اگر حمل کی مدت چالیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے؛ تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل حرام ہوگا، کیونکہ چالیس دن کے بعد نطفہ علقہ [لوتھڑا] بن جاتا ہے، اور یہ مرحلہ تخلیق انسان کی ابتدا ہوتی ہے، چنانچہ اس مرحلے میں پہنچنے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے، اور اگر معتبر طبی ماہرین کی ٹیم یہ رائے دے کہ حمل ٹھہرنے سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہوگا،  اور اگر  حمل جاری رہا تو ماں کی زندگی شدید خطرے میں چلی  جائے گی، تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل جائز ہوگا" انتہی

سوال میں مذکور صورت کے بارے میں یہی ظاہر ہے کہ اسقاط حمل جائز ہے، کیونکہ  مسلسل حمل کی صورت میں  ماں ، اور شیر خوار بچے کو نقصان کا خطرہ ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب