منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

ہفتہ ميں كچھ ايام كام اور باقى ايام عبادت ميں گزارنا چاہتا ہے

10946

تاریخ اشاعت : 08-09-2021

مشاہدات : 7679

سوال

ميں ايك مسلمان بھائى كو جانتا ہوں، كہ اس نے كام كى حرمت كا علم ہو جانے كے بعد الحمد للہ اپنى حرام ملازمت ترك كر دى ہے.
يہ بھائى اب ايسا كام تلاش كر رہا ہے جس سے اس كے خاندان كے كھانے پينے اور لباس كا خرچ چلتا رہے، وہ ہفتہ ميں اتنے دن كام كرنے كى خواہش ركھتا ہے جن كى آمدن اس كے ليے كافى ہو، اور وہ باقى ايام كو مسجد ميں قرآن مجيد كى تلاوت، اور نماز ادا كرتے ہوئے گزارنا چاہتا ہے... . الخ
كيا اس كا يہ طريقہ جائز ہے، كيا اسلام يہ نہيں كہتا كہ دن كمائى اور كام كاج كرنے كے ليے، اور رات نمازوں كے ليے ہے؟
كيا اس بھائى كے ليے يہ افضل نہيں كہ وہ كوئى ايسا اچھا سا كام تلاش كرے جس سے اس كى آمدن زيادہ ہو، اور اپنى ضرورت سے زيادہ مال وہ محتاج اور فقراء ميں تقسيم كر دے؟
كيا اوقات ميں بھى اس كے اہل و عيال كا حق نہيں ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كمائى كرنے كى استطاعت ركھنے والے شخص كو ايسى كمائى كرنے كى كوشش كرنى چاہيے جو اسے اور اس كے بيوى بچوں اور جن كا خرچ اس كے ذمہ ہے ان سب كى عفت و عصمت كى ضامن ہو، يعنى حلال كمائى كرے، لھذا جب اسے يہ مل جائے تو باقى اوقات چاہے دن كا ہو يا رات كا اسے اللہ تعالى كى عبادت نماز، روزہ اور تلاوت قرآن مجيد ميں بسر كرنا چاہيے، يہى اس كے ليے بہتر اور اچھا ہے، مطلق عبادت كے ليے كوئى وقت كى تخصيص نہيں.

ليكن جى ہاں يہ بات ہے كہ رات ميں قيام كرنا دن كى نفلى نماز سے افضل اور بہتر ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ دن ميں نفل نوافل كا كوئى اجروثواب ہى نہيں.

اسے چاہيے كہ وہ واجبات سے ابتدا كرے چاہے وہ واجبات اللہ تعالى كے متعلقہ ہوں يا مخلوق كے، پھر باقى وقت كو مستحب اشياء كے فعل ميں صرف كرے، اور راحت اور آرام اور دل بہلانے كے ليے بعض مباح اشياء زائل ہونے ميں كوئى حرج نہيں .

ماخذ: الشيخ عبد الكريم الخضير