جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

بار بار حج كرنا

سوال

اگر مشقت نہ ہو اور رغبت بھى ہو تو كيا ہر برس حج كرنا بہتر ہے، يا كہ ہر تين يا دو برس كے بعد حج كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر مكلف اور صاحب استطاعت شخص پر صرف عمر ميں ايك بار حج كرنا فرض كيا ہے، اور اس كے علاوہ باقى نفلى حج ہوگا جو اللہ سبحانہ و تعالى كے قرب كا باعث ہے، ليكن نفلى حج كى كوئى تحديد ثابت نہيں ہے كہ اتنى تعداد ميں حج كيا جائے، بلكہ مكلف كى مالى اور صحت كى حالت پر منحصر ہے كہ وہ كتنے حج كر سكتا ہے.

اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے اقرباء و رشتہ دار اور فقراء كے حالات كا بھى خيال كرنا ہوگا، اور اس كے ساتھ عام مصلحت كو بھى مدنظر ركھنا ہوگا، اور اس كا اپنے مال و نفس سے اس كى معاونت بھى مدنظر ركھيں، اور امت ميں اپنے مقام و مرتبہ كو بھى، اور حج وغيرہ ميں سفر و حضر ميں اس كے فائدہ كو بھى، اس ليے ہر كوئى اپنے حالات كو ديكھے كہ اس كے كيا فائدہ مند ہے وہ اسے مقدم كرے.

اللہ تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء.

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 14 ).

اگر حج كى استطاعت ركھتا ہو تو حج كو پانچ برس سے زائد نہيں ہونے چاہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: يقينا ميں نے بندے كا جسم صحيح سالم كيا، اور اس كے ليے معاش ميں بھى وسعت فرمائى، پانچ برس گزر گئے ہيں اور وہ ميرے پاس نہيں آيا .. "

ابن حبان حديث نمبر ( 960 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحيحۃ ميں مجموعى طرق كے اعتبار سے اسے حديث نمبر ( 1662 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب