منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بيمارى كى بنا پر ڈاكٹر حضرات نے پانچ برس تك روزے ركھنے سے منع كر ديا

سوال

مجھے سل كى بيمارى ہے ميں دو برس سے علاج كرا رہا ہوں، ڈاكٹروں نے مجھے پانچ برس تك روزے نہ ركھنے كا كہا ہے اور خوفزدہ كر ركھا ہے كہ اگر تم نے روزے ركھے تو بيمارى بڑھ جائيگى، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس عرصہ كے روزوں كا حكم كيا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى بھى تم ميں سے اس ماہ كو پائے تو وہ اس كے روزے ركھے، اور جو كوئى بيمارى ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).

يعنى جسے كوئى بيمارى لاحق ہو اور اس كے ليے اس بيمارى كى بنا پر روزہ ركھنا مشكل ہو، يا پھر بيمارى كى بنا پر روزہ تكليف دے، يا وہ سفر ميں ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا جائز ہے، جتنے ايام ميں روزے چھوڑے گا اس كى قضاء ميں روزے رمضان كے بعد روزے ركھنا ہونگے.

اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

تمہارے ساتھ اللہ تعالى آسانى كرنا چاہتا ہے، اور تمہارے ساتھ تنگى نہيں كرنا چاہتا البقرۃ ( 185 ).

علماء كرام نے بيان كيا ہے كہ جب مريض كو قابل اعتماد مسلمان ڈاكٹر بتائے كہ اس كے ليے روزہ ركھنا نقصاندہ ہے يا پھر بيمارى ميں اضافہ ہو سكتا ہے يا شفايابى ميں تاخير اور دير ہو سكتى ہے تو اس طرح كى حالت ميں اس كے ليے روزہ چھوڑنا شرعا جائز ہے.

ليكن اگر ڈاكٹر مسلمان يا غير مسلم ہو اور قابل اعتماد اور عادل نہ ہو تو اس كى بات ضرورت كے بغير قبول نہيں كى جائيگى، مثلا يہ كہ مريض كے ليے كسى دوسرے سے سوال كرنا ہى ممكن ہ ہو.

اس ليے جب ضرورت پائى جائے اور غير مسلم كى سچائى پر قرائن پائے جائيں كہ مريض خود بھى اس كو محسوس كرتا ہو يا پھر يہ مشہور ہو كہ روزہ ركھنے سے وہ بيمارى بڑھ جاتى ہے يا شفايابى ميں تاخير ہوجاتى ہے تو پھر اس صورت ميں روزے چھوڑنا جائز ہيں حتى كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے عافيت سے نوازے اور وہ بغير ضرر كے روزہ ركھنے كى طاقت حاصل كر لے.

رہا مسئلہ جو عرصہ اس نے روزے نہيں ركھے تو آپ كے ذمہ شفاياب ہونے كے بعد ان روزوں كى قضاء ميں روزہ ركھنا لازم ہيں، اور اس كى تاخير ميں آپ پر كوئى كفارہ نہيں ہوگا كيونكہ آپ نے بيمارى كى بنا پر وہ روزے ترك كيے ہيں " انتہى .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب