ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

حصولِ علم کے آداب

سوال

اللہ تعالی نے مجھ پر کرم کیا اور میں شرعی علوم پڑھنے لگ گیا ہوں، تو آپ مجھے حصولِ علم کے لیے کن آداب کو اپنانے کی نصیحت کریں گے؟

جواب کا خلاصہ

طالب علم کو حصولِ علم کے لیے جن آداب کو اپنانا چاہیے ان میں سے چند یہ ہیں: صبر اور اخلاص اپنائیں، سیکھے ہوئے علم پر عمل کریں، اللہ تعالی کو ہمیشہ اپنا نگران سمجھیں، وقت ضائع نہ کریں، اسباق اچھی طرح یاد کریں، انہیں دہرائیں، مفید کتابوں کا مطالعہ کریں، اچھا دوست بنائیں، اور استاد کا احترام کریں۔

الحمد للہ.

حصولِ علم کے آداب

حصولِ علم کے متعدد آداب ہیں، طالب علم ان تمام آداب سے مزین رہنے کی کوشش کرے، ذیل میں ہم آپ کو کچھ نصیحتیں اور آداب بیان کرتے ہیں، امید واثق ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ان سے فائدہ دے گا۔

اول: صبر

پیارے بھائی! حصول علم بہت بڑا کام ہے، اور بڑے کام آرام سے نہیں بلکہ محنت سے ہوتے ہیں، چنانچہ ابو تمام نے اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ؔ:

{ ذَرِيْنِيْ أَنَالُ مَا لَا يُنَالُ مِنَ الْعُلى  فصَعْبُ الْعُلى فِي الصَّعْبِ وَالسَّهْلُ فِي السَّهْلِ}

مجھے چھوڑ تا کہ میں ناقابل رسائی بلندیوں تک پہنچ سکوں؛ کیونکہ بلندیاں پانے کے لیے بلند صبر چاہیے، اور سہولت؛ پسند پستی میں رہتا ہے۔

{ تُرِيْدِيْنَ إِدْرَاكَ الْمَعَالِي رَخِيْصَةً   وَلَا بُدَّ دُوْنَ الشَّهْدِ مِنْ إِبَرِ النَّحْلِ}

توں سمجھتا ہے کہ بلندیاں پانا بڑا آسان ہے! حالانکہ شہد حاصل کرنے سے پہلے شہد کی مکھیوں کے ڈنک سہنے پڑتے ہیں۔

ایک اور شاعر نے کہا:
{ دَبَبْتَ لِلْمَجْدِ وَالسَّاعُوْنَ قَدْ بَلَغُوْا جُهْدَ النُّفُوْسِ وَأَلْقَوْا دُوْنَهَ الْأُزُرَا }

تم بلندیوں کے لیے رینگ رہے ہو اور دوڑنے والے اتنے تھک گئے کہ اپنے کپڑے انہوں نے اتار پھینکے۔

{ وَكَابَدُوا الْمَجْدَ حَتَّى مَلَّ أَكْثَرُهُمْ وَعَانَقَ الْمَجْدَ مَنْ أَوْفَى وَمَنْ صَبَرَا }

انہوں نے بلندی پانے کے لیے خوب محنت کی کہ اکثر مایوس ہوگئے، لیکن بلندی انہوں نے پائی جنہوں نے وعدہ نبھایا اور مکمل صبر کیا۔

{ لَا تَحْسَبَنَّ الْمَجْدَ تَمْراً أَنْتَ آكِلُهُ لَنْ تَبْلُغَ الْمَجْدَ حَتَّى تَلْعَقَ الصَبِرَا}

تم بلند مقام کو کھجور مت سمجھو جسے تم آسانی سے کھا لو گے، بلندی تب تک نہیں ملے گی جب تک تم کڑوی دوا نہ کھاؤ

اس لیے سب سے پہلے خود صبر کریں اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کریں؛ کیونکہ اگر جہاد کے محدود وقت صبر کرنا پڑتا ہے تو حصولِ علم کے لیے زندگی کے اختتام تک صبر کرنا پڑے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! خود ثابت قدم رہو، اور دوسروں کو بھی ثابت قدمی کی تلقین کرو، ہر وقت چوکس رہو، اور تقوی الہی اپناؤ تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔[آل عمران: 200]

دوم: اخلاص

حصولِ علم کے لیے نیت خالص رکھیں، علم حاصل کرنے کا مقصد اللہ کی رضا اور آخرت میں کامیابی ہو، اپنے آپ کو ریاکاری سے بچائیں، شہرت اور مقابلے بازی سے دور رہیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص علم اس لیے سیکھے کہ اس کے ذریعے علماء کی برابری کرے ،کم علم اور بے وقوفوں سے بحث و تکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے تو ایسے شخص کو اللہ تعالی جہنم میں داخل فرمائے گا) اس حدیث کو نسائی (2654)رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح سنن نسائی میں حسن قرار دیا ہے۔

مجموعی طور پر آپ ظاہری اور باطنی دونوں اعتبار سے ہر چھوٹے بڑے گناہ سے پاک صاف رہیں۔

سوم: علم پر عمل کریں۔

یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ علم پر عمل کرنا علم کا نتیجہ ہوتا ہے، اور اگر کوئی علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل نہ کرے تو اس نے یہودیوں جیسا کام کیا ہے ، اور ان کی اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بہت ہی قبیح مثال بیان کی ہے کہ:
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
 ترجمہ: جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو ، اللہ کی باتوں کو جھٹلانے والوں کی بڑی بری مثال ہے اور اللہ ایسی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ [الجمعہ: 5]

اور اگر کوئی علم کے بغیر عمل کیے جاتا ہے تو اس نے عیسائیوں کی مشابہت اختیار کی ہے، کیونکہ سورت الفاتحہ میں گمراہ لوگوں سے مراد یہی عیسائی لوگ ہیں۔

آپ کو کون کون سی کتابیں پڑھنی چاہییں، تو یہ سوال نمبر: (20191) میں ذکر کر دی گئی ہیں، آپ اس سوال کا جواب ضرور پڑھیں۔

چہارم: اللہ تعالی کو ہمیشہ اپنا نگران سمجھیں۔

خلوت و جلوت ہر جگہ اللہ تعالی کو اپنا نگران سمجھیں، اللہ تعالی کی جانب چلتے ہوئے خوف اور امید کے درمیان رہیں، کیونکہ یہی دونوں چیزیں مسلمان کے لیے پرندے کے دو پروں کا کام کرتی ہیں، ہمیشہ اللہ تعالی کی جانب متوجہ رہیں، ہر وقت آپ کا دل اللہ تعالی کی محبت سے سرشار رہے، اور آپ کی زبان ذکرِ الہی سے تر رہے، اللہ تعالی کے احکامات اور حکمتوں بھری ہدایات پر عمل کرتے ہوئے خوشی و مسرت کا اظہار کریں۔

ہر سجدے میں اللہ تعالی سے شرح صدر کے لیے دعا کریں، اللہ تعالی سے علم نافع مانگیں؛ اگر آپ اللہ تعالی کے ساتھ سچے ہوں گے تو اللہ تعالی آپ کو کامیاب بھی فرمائے گا اور آپ کی مدد بھی کرے گا، نیز آپ کو ربانی علمائے کرام کے درجے پر فائز کرے گا۔

پنجم: وقت ضائع مت کریں۔

"صاحب عقل و خرد شخص! جوانی اور زندگانی کے ختم ہونے سے پہلے علم حاصل کر لیں، کسی بھی کام کو کل کے لیے مؤخر مت کریں؛ کیونکہ زندگی کا گزرا ہوا وقت کسی بھی قیمت پر کبھی بھی واپس نہیں آئے گا اور گزرے ہوئے وقت کا کوئی متبادل بھی نہیں ہے، آپ جس قدر ہو سکے حصولِ علم کے لیے رکاوٹ بننے والی چیزوں کو ایک طرف کر دیں اور علم حاصل کرنے کے لیے پوری طاقت صرف کر دیں، یہ رکاوٹیں اور مشغولیات سب کی سب چیزیں حصولِ علم کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں، چنانچہ سلف صالحین حصولِ علم کے لیے گھر اور علاقے سے دور جانے کو مستحب سمجھتے تھے؛ کیونکہ جس وقت ذہنی توجہ بکھری ہوئی ہو تو چیزوں کی حقیقت اور دقیق چیزیں سمجھنے سے قاصر ہو جاتی ہے، اور اللہ تعالی نے کسی کو دہرا دل نہیں دیا! اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے : آپ کو علم کا تھوڑا سا بھی حصہ چاہیے تو آپ اپنا سب کچھ اسے دیں گے تو وہ تھوڑا سا آپ کو حاصل ہو گا۔

ششم: علمائے کرام کے اختلافات سے دور رہیں۔

حصولِ علم کے آغاز میں اپنے آپ کو علمائے کرام کے اختلافات سے دور رکھیں، بلکہ لوگوں کے درمیان بھی جو اختلافات ہوں ان میں بھی دخل اندازی نہ دیں، کیونکہ اس سے آپ کچھ سمجھ نہیں پائیں گے اور بے سود پریشان ہوں گے، اسی طرح ایک وقت میں مختلف کتابیں زیر مطالعہ مت رکھیں؛ کیونکہ اس طرح آپ کا ذہن منتشر ہو گا، آپ جو بھی پڑھنا چاہیں پہلے اسے مکمل کریں اور اسے اچھی طرح سمجھ لیں اور بلا وجہ ایک کتاب سے دوسری کتاب کی جانب منتقل نہ ہوں؛ اس طرح انسان تنگ آ جاتا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا، نیز کوئی بھی فن آپ اختیار کریں اہم سے اہم تر فنون پہلے پڑھیں۔

ہفتم: اسباق اچھی طرح یاد کریں اور انہیں دہرائیں۔

آپ جو کچھ بھی یاد کریں اس میں کسی قسم کی غلطی نہیں ہونی چاہیے، اس کے لیے آپ اپنے مدرس کو بار بار سنائیں، یا اپنے ساتھی کے ساتھ دہرائی کریں، اچھی طرح یاد کرنے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر پابندی کے ساتھ دہرائی کریں تا کہ آپ کا یاد کیا ہوا حصہ اچھی طرح پختہ رہے۔

ہشتم: کتابوں کا مطالعہ کریں۔

جب آپ مختصر کتابیں یاد کر لیں اور ان کی شرح کے ساتھ انہیں سمجھ بھی لیں ، ان میں پیدا ہونے والے اشکالات اور اہم فوائد ازبر کر لیں تو پھر آپ تفصیلی کتابوں کی طرف رجوع کریں، پابندی کے ساتھ مطالعہ کریں، دوران مطالعہ جو دقیق اور انوکھے مسائل، اشکالات کا حل ، ملتے جلتے مسائل میں تفریق جیسی مفید باتیں سامنے آئیں انہیں نوٹ کر لیں، کسی بھی اچھی چیز کو معمولی مت سمجھیں بلکہ اسے لکھ کر اچھی طرح یاد کر لیں۔

حصول علم کے لیے اپنا عزم بلند رکھیں، جب زیادہ علم حاصل کرنا ممکن ہو تو تھوڑے پر اکتفا مت کریں، علوم نبوت کے وارثین بننا چاہ رہے ہیں تو معمولی وراثت پر قناعت مت اپنائیں، پھر جو علمی فائدہ آپ حاصل کر سکتے ہیں اس کے حصول میں تاخیر کا شکار مت ہوں؛ کیونکہ تاخیر کی وجہ سے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں، ویسے بھی جو کام آپ آج کر لیں گے آئندہ وقت میں آپ اس سے آگے بڑھ سکیں گے۔

وقت ضائع مت کریں ، جب بھی آپ کو فراغت، جسمانی قوت اور نشاط کے ساتھ وقت ملے تو اپنے وقت کو قیمتی بنائیں، جب مصروفیات نہ ہو اور ذہنی طور پر بھی آپ توانا ہوں تو اس وقت کو اپنے لیے غنیمت جانیں۔

حصولِ علم کے لیے علوم آلہ کی کتابوں کا مطالعہ بھی رکھیں، جہاں تک آپ انہیں بھی سمجھ سکیں تو انہیں بقدر استطاعت پڑھیں۔

نہم: اچھا دوست بنائیں۔

اچھے اور نیک طالب علم کو اپنا دوست بنائیں، جو حصول علم کے لیے اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہو، اچھے مزاج کا حامل ہو، آپ کے اہداف کے حصول میں آپ کی مدد کرے، اور آپ کے فائدے کی تکمیل میں آپ کا معاون ہو، آپ کو آگے لے کر چلے، اگر کہیں آپ ہمت ہار رہے ہیں یا تھکاوٹ محسوس کر رہے ہیں تو آپ کی ڈھارس باندھے۔ آپ کا دوست دینی اور اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہونا چاہیے، اللہ کے لیے آپ کا خیر خواہ ہو آپ کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا نہ ہو" ختم شد مزید کے لیے دیکھیں: ابن جماعہ کی کتاب: "تذکرۃ السامع"

اپنے آپ کو برے دوستوں سے بچائیں، کیونکہ انسان اپنے دوستوں سے متاثر ہو جاتا ہے، لوگوں کو اللہ تعالی نے پرندوں کے جھنڈ کی طرح ایک دوسرے سے مشابہت رکھنے والا بنایا ہے، اس لیے برے دوستوں سے اپنے آپ کو بچائیں کیونکہ برا دوست بیماری کی طرح ہوتا ہے اور بیماری کا علاج کرنے سے بہتر یہ ہے کہ انسان پہلے ہی پرہیز کر لے۔

دہم: اپنے استاد کا مکمل احترام کریں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ حصولِ علم ورق گردانی سے ممکن نہیں ہے، بلکہ بے راہ روی سے بچنے کے لیے کسی استاد کی رہنمائی انتہائی ضروری ہے، اس لیے استاد کا احترام لازم ہے؛ کیونکہ استاد کا احترام کامیابی اور فلاح کی علامت ہے، آپ کو استاد کے احترام سے علم اور کامیابی دونوں نصیب ہوں گی، آپ کا استاد کے ساتھ تعلق؛ احترام، عزت اور نرم مزاجی والا ہونا چاہیے۔ استاد کے سامنے بیٹھتے ہوئے مکمل آداب کا خیال رکھیں، ان سے بات کرتے ہوئے، سوال پوچھتے ہوئے اور ان کی بات سنتے ہوئے مکمل طور پر مؤدب رہیں، استاد کے سامنے کتاب کے صفحات الٹتے ہوئے بھی ادب کریں، ان کی موجودگی میں بلند آواز میں مت بولیں نہ ہی ان کی موجودگی میں بحث و تکرار کریں، بات چیت میں انہیں بولنے کا موقع پہلے دیں، چلتے ہوئے ان سے آگے مت چلیں، ان کی موجودگی میں زیادہ مت بولیں، جب استاد گفتگو کر رہا ہو تو درمیان میں مت ٹوکیں، یا ان سے کسی سوال کا جواب لینے کے لیے الحاح مت کریں، نیز سب لوگوں کے سامنے ان سے زیادہ سوالات مت کریں، اس طرح آپ کے دل میں غرور پیدا ہو سکتا ہے اور استاد آپ کے جوابات دے دے کر تھک جائے گا، استاد کے نام کو محض نام لے کر مت پکاریں، بلکہ احترام سے کہیں: میرے استاد محترم۔

اور اگر آپ کو اپنے استاد محترم کے حوالے سے کسی غلطی کا علم ہو تو پھر بھی ان کے احترام میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دو؛ کیونکہ اس طرح آپ اپنے استاد کے علم سے محروم ہو جائیں گے، نیز دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں ہے جو غلطی سے پاک صاف ہو" ختم شد
دیکھیں: حلیۃ طالب العلم، از الشیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ

ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کے لیے کامیابی اور ثابت قدمی کے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں وہ دن بھی دکھلائے جب آپ مسلمانوں کے ایک عظیم عالم دین بن کر ابھریں، دینی مسائل کے لیے لوگ آپ سے رجوع کریں، اور آپ کو اللہ تعالی متقی لوگوں کا امام بنائے۔ آمین، والسلام

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد