جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

جادو سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے اور کیا جادو کے علاج کے لئے زم زم استعمال کیا جاسکتا ہے؟ اور صحیح دم کی شروط۔

13792

تاریخ اشاعت : 22-12-2003

مشاہدات : 17795

سوال

میں برصغیر کا باشندہ اوریورپ میں رہائش پزیرہوں ، میرا جادو سے متاثر ہونے والے لوگوں کا تعاون کرنے والے اہل علم کے پاس جانا مشکل ہے ، کیا کسی شخص کے لئے یہ صحیح ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ مرد یا عورت کو غیرت یہ نا پسندیدگی کی بنا پر کچھ کیا گیا ہو؟ وہ کونسی اشیاء ہیں جن کے ذریعہ سے جادو کی تاثیر سے نجات پائی جاسکے؟
میں نے ایک حدیث پڑھی ہے جس میں یہ ہے کہ زم زم جس چیز کے لئے پیا جائے وہ اسی لئے ہے۔ اور وہ سب امراض کی دوا اور علاج ہے تو کیا یہ دونوں نصیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ زم زم جادو سے بھی شفا دے گا؟
اور کیا کسی بھی قسم کا دم کیا جاسکتا ہے؟ اگر تو جواب ہاں میں ہو تو انسان کو یہ عمل کس طرح کرنا چاہئے۔ جس تہذیب سے میں آیا ہوں وہاں پر لوگ عام طور پر ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں جنہیں وہاں (پیر) یا پھر ان کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ متقی اور دین پر چلنے والے ہیں ان سے تویذ لیکر اپنی گردنوں میں ڈالتے ہیں تاکہ جادو کے اثر سے بچا جاسکے تو کیا یہ شرک کی قسم ہے؟
اور میں نے اکثر یہ پڑھا ہے کہ یہ لوگ صوفیاء میں سے ہیں۔ تو کیا اس طرح کے لوگوں کے پاس جانا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی آپ کر اپنا عقیدہ سلامت رکھنے کی حرص اور دلائل کے ساتھ حق تک پہنچنے کی کوشش پر جزائے خیر عطا فرمائے۔

اور ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں سنت رسول پر ثابت رہنے کی توفیق دے حتی کہ ہم اس سے جا ملیں۔

آپ اپنے علم میں رکھیں اللہ تعالی آپ کوتوفیق سے نوازے ، بیشک مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ وسوسوں اور وہموں سے دور رہے اور بچے کیونکہ یہ سینہ کی تنگی کو اجیرن بنا دیتے ہیں۔ تو یہ صحیح نہیں کہ جو تکلیف بھی آئے اسے جادو یا پھر نظر بد سے منصوب کردے۔ لیکن اگر انسان کی حالت ایسی ہو جائے جو کہ طبعی نہ ہو یا پھر ایسا معاملہ پیش آئے جو کہ عادتا نہیں ہوتا تو اس میں شک ہو کہ جادو ہے یا نظر بد تو اس کی تاکید چاہتا یا پھر اسکی تحقیق اور اسکا علاج چاہتا ہو تو اسکا شرعی طریقہ یہ ہے کہ:

وہ شرعی دم جو کہ کتاب وسنت سے ہوں اور شرعی دعائیں جن کا مفہوم صحیح ہوچاہے انسان اپنے آپ کو خود دم کرے یا کسی دم کرنے والے کے پاس جائے لیکن شرط یہ ہے کہ دم کرنے والا کتاب وسنت پر عمل کرنے والا اور صاحب استقامت اور صاحب اصلاح ہو۔

تو نظر اور جادو کے علاج کا صحیح طریقہ یہ ہے اور اسکے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے دعاء اور شفاء اور عافیت طلب کرنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالی وہ ذات ہے جس نے آزمائش اور تکلیف مقدر میں کی اور اسے رفع کرنا بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

اور زم زم کے متعلق عرض یہ ہے کہ یہ بابرکت پانی ہے جس کی احادیث آئی ہیں ان میں سے کچھ ذکر کی جاتی ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جسے مسلم نے (2473) روایت کیا (بیشک یہ بابرکت ہے اور بیشک کھانے والے کے لئے کھانا ہے۔)

اور ابو داوود الطیالسی کی روایت میں ہے جسکی سند صحیح ہے (بیشک کھانے والے کے لئے کھانا اور بیماری سے شفا ہے۔)

اور ایک اور حدیث میں جسے علماء نے حسن کہا ہے۔ ان میں امام ابن عیینہ اور شیخ البانی اور ابن قیم وغیرہ نے کثرت طرق کی بنا پر اسے حسن کہا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے (زم زم کا پانی جس کے لئے پیا جائے اسی کے لئے ہے۔) اسے احمد نے (3/357) روایت کیا ہے۔ اور اسکے متعلق علماء کے اقوال دیکھنے کے لئے دیکھیں ارواء (4/320 اور اسکے بعد)

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: اور میں نے اور میرے علاوہ کئ اور لوگوں نے بھی اسکا تجربہ کیا ہے کہ زم زم کے پانی سے عجیب بیماری سے شفایابی ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالی کے حکم سے مجھے بہت سے امراض سے زم زم سے شفا ملی ہے اور میں نے ان لوگوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے جو اسے بہت دنوں بطور غذا استعمال کرتے رہے تقریبا نصف مہینہ یا اس سے بھی زیادہ اور انہیں بھوک محسوس نہیں ہوئی۔ زاد المعاد (3/129)

تو یہ بلا شک اللہ تعالی کے حکم سے جادو اور دوسرے امراض سے شفا کے اسباب میں سے ایک سبب عظیم ہے جب کوئی شخص اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام کی تصدیق کرتا ہو اپنے اور اللہ تعالی اسے اس سے شفا دینے کا ارادہ کرلیں تو پھر شفا ہوگی۔

بیشک بعض اوقات اللہ تعالی کسی سبب بننے والی چیز کے اسباب کو بھی ختم کردیتے ہیں اور وہ کسی حکمت کی بنا پر ہوتا ہے جس طرح کہ اگر کوئی مریض مجرب دواء پئے لیکن اسے شفا نہ ملے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ دوا میں نقص ہے بلکہ بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کی تقدیر ہے جس نے اس دوائی میں کسی حکمت کی بنا جسکا علم اللہ تعالی ہی کو ہے نفع نہیں رکھا۔

اور دم کی اقسام کے متعلق تو علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ وہ جو دم جو کہ صحیح اور شرعا مقبول ہوگا اس میں اجمالی طور پر تین شرطوں کا ہونا لازمی ہے۔

اول : یہ دم کرنے کروانے یہ عقیدہ نہ ہو کہ دم بنفسہ (یعنی دم خود ہی) فائدہ مند ہے تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔ بلکہ اسکا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ یہ سبب ہے اور اللہ تعالی کے حکم کے بغیر فائدہ نہیں دے سکتا۔

دوم : یہ کہ شرعی مخالفت پر مشتمل نہ ہو مثلا غیر اللہ کو پکارنا یا جنوں اور شیطانوں سے مدد (استغاثہ) مانگنا اور اسکے مشابہ چیزوں میں سے تو یہ بھی شرک ہوگا اس سے اللہ تعالی کی پناہ۔

سوم : یہ دم سمجھ میں آنے والا ہو اور معلوم۔ تو اگر طلمساتی چیزوں اور شعبدہ بازی پر مشتمل ہو یہ جائز نہیں ہے۔ (دیکھیں۔ القول المفید۔ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ۔ 1/184)

تو اگر ان مخالفات سے خالی ہوتو چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو صحیح ہے۔ اگر وہ مریض پر پھونک کے بغیر پڑھا۔ یا پھر پانی پرپڑھا جائے اور اسے مریض پی لے یا کسی تیل پر اور وہ تیل مریض اپنے جسم پر مل لے اور اس کی مشابہ اشیاء تو یہ جائز ہے اور اللہ تعالی کے حکم سے نفع مند ہیں۔

اور ان لوگوں کے متعلق جنکا ذکر آپ نے (پیر) کے نام سے کیا ہے تو پتہ نہیں یہ کون لوگ ہیں اور انکی حقیقت کیا ہے۔ اور برکت تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو اپنی مخلوق میں سے جس میں چاہے یہ برکت کردیتا ہے تو صرف بعض اشخاص کے دعوی پر ہی اسکے پیچھے لگنا جائز نہیں۔ اور اس طرح کے بہت سے معاملات غلو کی طرف لے جاتے ہیں جو کہ شرک میں وقوع کا باعث بنتا ہے۔

اور دم کرنے والے کو جانچنے کا جو پیمانہ ہے وہ یہ ہے کہ سنت پر چلنے اور بدعات سے دور بھاگنے والا ہو اور اسکی کلام اور اسکے تصرفات اور طلبات واضح ہونی چاہئے اور وہ ایسی عجیب وغریب چیزیں طلب نہ ہی ایسی عبارات لکھے جو سمجھ نہ آسکیں یا پھر دھونی استعمال نہ کرے یا پھر ماں کا نام پوچھے اور کپڑے کا ٹکڑا طلب کرے یا پھر حرام چیزوں کے ساتھ علاج کرے مثلا خون وغیرہ شعبدہ بازوں کے کام وغیرہ نہ کرتا ہو اور وہ چیز جو کہ اسکے بارہ میں شک پیدا کرے۔

اور تعویذوں کے متعلق آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے آپ اسی ویپ سائٹ پر سوال نمبر (10543) کا مطالعہ کریں۔

اور رہا مسئلہ صوفیوں کا جو کہ شعبدہ بازی کے اسلوب اور اسی طرح کے اور کام کرتے ہیں تو انکے پاس کسی بھی حالت میں جانا جائز نہیں ہے۔ اور ان صوفیاء کے متعلق معلومات میں اضافہ کے لئے اسی ویپ سائٹ پر سوال نمبر (4983)کا مراجعہ اور مطالعہ کریں۔

ہم اپنے اور آپ کے لئے اللہ تعالی سے توفیق اور سیدھا راہ طلب کرتے ہیں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد