جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ميلاد النبى كى مٹھائى خريدنا

سوال

كيا عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك روز قبل يا ايك روز بعد يا ميلاد النبى كے دن ميلاد كى مٹھائى كھانا حرام ہے، اور ميلاد كى مٹھائى خريدنے كا حكم كيا ہے كيونكہ يہ مٹھائى انہيں ايام ميں ماركيٹ ميں آتى ہے، برائے مہربانى معلومات فراہم كريں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ميلاد منانا بدعت ہے، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت ملتا ہے، اور نہ ہى كسى صحابى يا تابعي يا كسى امام سے، بلكہ يہ تو بدعتيوں اور تہواروں كے رسيا لوگوں نے ايجاد كيا ہے، جس طرح انہوں نے دوسرى بدعات و گمراہياں ايجاد كيں اسى طرح يہ بھى.

اس جشن ميلاد كى بدعت كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 10070 ) اور ( 70317 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

اصل ميں ضرر اور نقصان سے خالى مٹھائى وغيرہ خريدنا اور كھانا جائز ہے، جب تك اس ميں كسى برائى ميں معاونت نہ ہوتى ہو، يا پھر اس كى ترويج اور اس بدعت كو مسلسل كرنے كا باعث نہ بنتى ہو.

ظاہر يہى ہوتا ہے كہ جشن ميلاد كے ايام ميں ميلاد النبى كى مٹھائى خريدنا اس كى ترويج اور ايك قسم كى معاونت كا باعث ہے، بلكہ يہ ايك طرح كا جشن ميلاد اور اسے عيد منانا ہے، كيونكہ عيد وہ ہے جس كے لوگ عادى ہوں، اس ليے اگر تو لوگوں كا جشن ميلاد ميں يہ معين چيز كھانا عادت ہو، يا پھر وہ اسے ميلاد كے ليے تيار كرتے ہوں اور باقى ايام ميں نہ ملتى ہو تو اس كى خريد و فروخت اور كھانے اور اس دن ہديہ دينا جشن ميلاد منانے كى ايك قسم ہے، اس ليے ايسا نہيں كرنا چاہيے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں محبت كے تہوار ويلنٹائن ڈے كے تہوار اور اس كےمتعلقہ سرخ رنگ كى مٹھائى جس پر دل كى تصوير بنى ہوتى ہے كے متعلق درج ہے:

" كتاب و سنت كے صريح دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ ـ اور امت كے سلف صالحين اس پر جمع ہيں ـ اسلام ميں صرف دو عيديں اور تہوار ہيں يعنى عيد الفطر اور عيد الاضحى اس كے علاوہ كوئى عيد اور تہوار نہيں، چاہے وہ تہوار كسى شخص كے متعلق ہو يا جماعت كے يا كسى واقعہ و حادثہ كے، يا كسى بھى موضوع اور معنى كے متعلقہ يہ سب تہوار بدعتى ہيں اہل اسلام كے ليے ان تہواروں كا منانا جائز نہيں، اور نہ ہى ان كے ليے اس ميں خوشى وسرور كا اظہار كرنا جائز ہے، اور ان كے ليے كسى بھى طرح اس ميں معاونت كرنى بھى جائز نہيں.

كيونكہ يہ اللہ كى حدود سے تجاوز كرنا ہے؛ اور جو كوئى بھى اللہ كى حدود سے تجاوز كرتا ہے وہ اپنى جان پر ظلم كر رہا ہے..

اسى طرح مسلمان كے ليے اس ميں كسى بھى طرح سے معاونت كرنا حرام ہے چاہے وہ كھانا ہو يا پينا، يا خريد و فروخت كے ذريعہ يا پھر اس تہوار كے اشياء اور كھانے تيار كرنا، يا اس كے ليے خط و كتاب كرنا، يا پھر اعلان كرنا.

كيونكہ يہ سب كچھ گناہ اور ظلم و زيادتى ميں تعاون اور اللہ اور اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى معصيت و نافرمانى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے . انتہى

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب