بدھ 15 شوال 1445 - 24 اپریل 2024
اردو

وضوء ميں اعضاء صابن كے ساتھ دھونا اور بچے كا پيمپر تبديل كرنا

سوال

ميں نے كچھ عرصہ قبل ہى اسلام قبول كيا ہے، اور ميرا سوال وضوء كے متعلق ہے:
كيا وضوء ميں خاص كر چہرہ، كہنيوں تك ہاتھ، اور پاؤں دھوتے وقت صابن استعمال كرنا ضرورى ہے ؟
ميں نے جتنى بھى كتب كا مطالعہ كيا ہے اس ميں صابن كا ذكر نہيں صرف دھونے كے الفاظ ہى استعمال ہوئے ہيں، اور كيا جب بچے كا پيمپر تبديل كيا جائے تو وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - ہم آپ كو اسلام قبول كرنے پر مباركباد ديتے، اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو صراط مستقيم كى طرف راہنمائى كا انعام كيا، ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے آپ كو اور ہميں اس دين پر ثابت قدم ركھے.

2 - وضوء كرتے وقت آپ كے ليے صابن كا استعمال ضرورى نہيں، آپ نے جو كتاب اور مصادر پڑھے ہيں جن كا سوال ميں اشارہ بھى كيا ہے ان ميں استعمال كردہ لفظ " دھونا " سے صابن يا كوئى اور چيز مراد نہيں، صرف پانى استعمال كرنا ہى مراد ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

وضوء كے وقت صابن سے ہاتھ اور چہرہ دھونا مشروع نہيں، بلكہ يہ غلو اور زيادتى ميں شامل ہوتا ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے:

" غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے، غلو كرنے والے ہلاك ہو گئے، يہ الفاظ تين بار دھرائے"

جى ہاں فرض كريں اگر ہاتھوں گندے ہوں اور صابن وغيرہ استعمال كيے بغير صاف نہ ہوں تو اس وقت صابن كے استعمال ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر معاملہ عادى اور عام ہو تو پھر ( وضوء ميں ) صابن استعمال كرنا غلو اور بدعت ميں شمار ہوگا، چنانچہ استعمال مت كريں.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 223 ).

3 - رہا بچے كا پيمپر تبديل كرنے كا مسئلہ: اگر تو آپ كا مقصد صرف تبديل كرنا ہى ہے تو يہ وضوء كے ليے اثرا انداز نہيں.

ليكن اگر اس سے مراد يہ ہے كہ آپ نجاست كو چھوئيں تو يہ بھى وضوء كے ليے غير مؤثر ہے، كيونكہ وضوء كى صحت اور نجاست چھونے ميں كوئى تعلق نہيں، اہل علم نے اس ميں اجماع نقل كيا ہے.

ديكھيں: الاوسط ابن منذر ( 1 / 205 ).

واجب يہى ہے كہ ہاتھوں ميں جہاں نجاست لگى ہو اسے دھو ليں.

اور اگر اس سے مراد يہ ہے كہ آپ بچے كى شرمگاہ كو ہاتھ لگائيں تو دو سال سے كم عمر بچے كى شرمگاہ كا كوئى حكم نہيں، جيسا كہ علماء كرام كا كہنا ہے، اس ليے اگر آپ دو سال سے كم عمر بچے كى شرمگاہ كو ہاتھ لگائيں تو وضوء پر كوئى اثر نہيں ہوگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد